
Wednesday, August 22, 2012
Tuesday, August 21, 2012
Monday, August 20, 2012
Ghazals
کچھ دن گلوبل
گانو میں
غزلیں
ڈاکٹرفریاد آزرؔ
*
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں!
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں
تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں‘پھر پانووں پر ‘پھر سفر درسفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں
اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں
منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا‘ ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں
*
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ میرا‘‘
کہ میرے بعد بھلا اور کون تھا میرا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
یہی کہ سانس بھی لینے نہ دے گی اب مجھ کو
زیادہ اور بگاڑے گی کیا ہوا میرا
میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
مرے سفر کو تو صدیاں گزر گئیں لیکن
فلک پہ اب بھی ہے قائم نشانِ پا میرا
بس ایک بار ملا تھا مجھے کہیں آزرؔ
بنا گیا وہ مجھی کو مجسمہ میرا ا
*
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ سر کو سائباں چھوٹا لگا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں ! قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس‘ محرومی‘ محبت‘ کرب‘ خوش فہمی‘ انا
اتنے ساماں تھے‘ مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
جی رہا ہے وعدۂ فردا پہ تیرے اے خدا
ورنہ اس بندے کو تیرا یہ جہاں چھوٹا لگا
ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب
جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا
دور سے قطرہ بھی اک دریا نظر آیا مجھے
قربتوں کی زد میں بحرِ بیکراں چھوٹا لگا
*
اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
اِدھر سسکتے ہوئے لبوں کا برہنہ طرزِ بیان بھی چپ
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا‘ ہوگیا وہ خالی مکان بھی چپ
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آرہی ندائے اذان بھی چپ
کہیں کوئی سر پھری ندا پردۂ سماعت بھی نوچ ڈالے
مگر کہیں دہشتِ سماعت سے احتجاجی زبان بھی چپ
پکارتا تھا پناہ لے لے کوئی بھی سائے میں میرے آزرؔ
تھی دھوپ ایسی ہمارے سر پر کہ ہوگیا سائباں بھی چپ
*
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا
پانو کے نیچے سلگتی ریت‘ صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
نوح ؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور
خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا
ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر
دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا
سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے
سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا
جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس
روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا
*
کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آجائے
ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے‘ کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں
قدم ادھر ہی اٹھے جارہے ہیں جس جانب
سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں
کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی
مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں
نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!
میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں
*
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خودساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا۔!
اور پھر آگ کے دریا میں گرایا ہے مجھے
کیوں مری روح ہوئی جاتی ہے چھلنی چھلنی
کس لئے کربِ فلسطین بنایا ہے مجھے
مجھ کو بپھرے ہوئے دریا ؤں کی لہر وں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرا یا ہے مجھے
بارہا بہکے مرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے
*
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا۔!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اُس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
بے بسی سے مِری‘ بے حِس نہ سمجھ لینا مجھے
دل میں وہ لاوا اُبلتا ہے کہ رب جانتا ہے
شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے
وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے
ہم نے نقاد کی اس درجہ پذیرائی کی
آج وہ خود کو مسیحائے ادب جانتا ہے
*
حدِّنظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کاکوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرایے داروں کے پایے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہوگیے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی
ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا
سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر
تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھرمیں بدل جاتا ہے
ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی
پیش منظر پسِ منظر میں بدل جاتا ہے
نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی
اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی
لفظ اچانک بتِ ششدر میں بدل جاتا ہے
*
گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
گر فرشتہ رفعتِ انساں تک اڑ کر دیکھتا
سب کی آنکھیں رکھّی تھیں گِروی‘ مرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
زہر کا رنگ اس کے بھی ہوجاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا‘ شنکر دیکھتا
لے ہی آئی کھینچ کر آدم کو شہروں کی کشش
آخرش کب تک کوئی صحرا سمندر دیکھتا
اجبنی آندھی مجھے ساحل سے لے کر اُڑ گئی
ورنہ میں بھی آگ کے دریا میں جل کر دیکھتا
کیوں ترے لب پر قصیدے ہیں مرے کردار کے
میری خواہش تھی ترے ہاتھوں میں پتھر دیکھتا
*
سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بُلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بُھول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزماکے مجھے
جو اپنے لوگوں میں میری ہنسی اڑاتا رہا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
یہاں کسی کو کوئی پوچھتا نہیں آزرؔ
کہاں پہ لائی ہے اندھی ہوا اڑا کے مجھے
*
خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھی
بچھڑ کے اس سے دعا کے لہجے کی ضد عجب تھی
ہوائے شفقت چُھری بھی والد سے چھین لیتی
پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی
کھلونا ایسا جو گھر کے بوڑھوں کے کام آئے
نئی نظر کے غریب بچے کی ضد عجب تھی
یوں کوئی شاید مزاج ہی پوچھ لے ہمارا
مسرتوں میں اداس رہنے کی ضد عجب تھی
میں جس کی خاطر نماز پڑھتا رہا ہمیشہ
اُسے دعاؤں میں بھول جانے کی ضد عجب تھی
بس ایک لمحے کی مَوت اچھی بھلی تھی آزرؔ
مگر تجھے قسط قسط مرنے کی ضد عجب تھی
*
کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
خواب سے پہلے ہی تعبیر نظر آنے لگی
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزید وں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
پھر مجھے رقص کے احکام ملیں گے شاید
پھر مرے پاؤں میں زنجیر نظر آنے لگی
ناؤ کاغذ کی لیے کود پڑے اہلِ جنوں
آگ دریا میں وہ تحریر نظر آنے لگی
تجھ سے بچھڑے تو عجب حال ہوا دل کا مگر
شخصیت اور ہمہ گیر نظر آنے لگی
جانے کس سمت سے آئی تھی ہوائے سازش
آگ میں وادیِ کشمیر نظر آنے لگی
*
ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
گل احتجاج کی قندیل ہونے والی ہے
زمیں پہ آمدِ جبریل ختم ہو بھی چکی
ندائے صورِ سرافیل ہونے والی ہے
ہزاروں ابرہہ لشکر سجا رہے ہیں تو کیا
ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے
میں تھک چکا بھی ہوں اور آخری صدا میری
انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے
اِک ایک کرکے گرے جارہے ہیں سارے درخت
دعا سے خالی یہ زنبیل ہونے والی ہے
ذرا سی دیر میں دیوارِ قہقہہ آزرؔ
فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے
*
اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگا
وہ شخص مجھ سے اور زیادہ ہی کچھ لگا
شہرِ جدید دل کو بھلا پوچھتا ہے کب
ہاں ذہن اس کا سب کو کشادہ ہی کچھ لگا
بس اس لیے سفر میں رہا میں تمام عمر
منزل سے پرکشش مجھے جادہ ہی کچھ لگا
سب لوگ خوش تھے حبس کی مدت گزر گئی
لیکن ہوا کا اور ارادہ ہی کچھ لگا
سب اُس کو بے وقوف سمجھتے رہے مگر
وہ عقل مند مجھ کو زیادہ ہی کچھ لگا
ہر چند گام بعد اترنا پڑا اُسے
وہ شہسوار ہم کو پیادہ ہی کچھ لگا
*
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہا ئی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی
آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے
اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے برس بھی
پہلے بھی دریا دریا برسی تھی برکھا
صحرا صحرا پیاس لکھے گی اب کے برس بھی
جس میں وِش کا واس ہوا کرتا ہے آزرؔ
جان وہی وِشواس لکھے گی اب کے برس بھی
*
اپنے ہی معنٰی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں‘ کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
آخرش کب تک مکانوں میں مجھے رہنا پڑے گا
کیا مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں گھر کوئی نہیں ہے
کس کی خاطر اوڑھ رکّھی ہے ردائے انتظاراں
اس نئی رُت میں کسی کا منتَظر کوئی نہیں ہے
گل نظر آتا نہیں تو نرگسِ بے نورہے کیا
اہلِ دیدہ ہیں یہاں سب‘ دیدہ ور کوئی نہیں ہے
صبر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے آزرؔ وگرنہ
ان درختوں پر مری خاطر ثمر کوئی نہیں ہے
*
عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
لہولہان ہے پنچھی مگر اڑان میں ہے
بچاؤں لاکھ مگر بھیگ بھیگ سا جائے
وہ ایک عکس جو پلکوں کے سائبان میں ہے
چراغِ آرزو بجھنے بھی تو نہیں دیتا
وہ ایک آس کا پنچھی جو آسمان میں ہے
نحیف پھولوں میں باقی ہے رس ابھی شاید
کہ تتلیوں کا ٹھکانا ابھی بھی لان میں ہے
ذرا سا لمس اُسے چُور چُور کردے گا
وہ ایک شیشہ بدن مرمریں مکان میں ہے
اب اس جبیں کو سند ہائے کامیابی دے
ازل سے بیکراں سجدوں کے امتحان میں ہے
*
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تما م قرض ادا کرکے ’ساہُکاروں‘ کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹارہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہمارے بچے ہوئے تھے جوان قسطوں میں
اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں
*
اب مناظر جنگلوں کے بھی ڈسیلے ہوگئے
مبتلا جدت پرستی میں قبیلے ہوگئے
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں
راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہوگئے
یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب
سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہوگئے
جانے اس کے جسم میں کن موسموں کا زہر تھا
جس کو چھوتے ہی ہوا کے ہاتھ نیلے ہوگئے
ورنہ وہ تو میرے دامن سے لپٹ جانے کو تھا
وہ تو کہئے کچھ نئے حالات‘ حیلے ہوگئے
*
اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
ہم خود اپنی راہ کی دیوار ہو کر رہ گئے
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اُس مکاں میں ہم کرایے دار ہوکر رہ گئے
کربلائے وقت کے میدان سے مفرور لوگ
خاندانی غازیِ گفتار ہو کر رہ گئے
دوریاں نزدیکیوں میں ہوگئیں تبدیل جب
جس قدر مشتاق تھے بیزار ہو کر رہ گئے
جیتنے نکلے تھے آزرؔ دشمنِ امت کا دل
دشمنوں کے ہاتھ کی تلوار ہوکر رہ گئے
*
بند دریا سے بھی برداشت کہاں تک ہوگا
اب کے سیلاب جو آیا تو بھیانک ہوگا
وہ وفادارِ وطن ہے یہ سبھی مانتے ہیں
بے وفائی بھی کرے گا تو کسے شک ہوگا
اُس کے سینے میں سلگتی ہوئی نفرت ہوگی
اُس کے ہونٹوں پہ مگر عید مبارک ہوگا
پہلے چن چن کے جلا دیں گے ہمیں فرقہ پرست
دیر تک شہر میں پھر امن کا ناٹک ہوگا
ہم سے ہمدردیاں کی جائیں گی دن بھر آزرؔ
اور پھر ہم پہ ہی شب خون اچانک ہوگا
*
گر یہی حال رہا دہر میں زہریلوں کا
پھر اتر آئے گا لشکر بھی ابابیلوں کا
ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کردے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہَوا جھیلوں کا
سبز لمحات سے جب ہوگی ملاقات اُس کی
خود پہ روئے گا بہت عہد مِزائیلوں کا
کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے
یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا
کیوں بلائیں مرا گھر چھوڑ کے جاتی ہی نہیں
ختم کیوں ہوتا نہیں سلسلہ تاویلوں کا
*
’’خزاں محور‘‘ سے ہٹتا جا رہا ہوں
میں شاید خود سے کٹتا جا رہا ہوں
صدی بننے کی خواہش کا بُرا ہو
میں لمحوں میں سمٹتا جا رہا ہوں
سبھی وارث ہیں دعوے دار میرے
میں اب حصوں میں بٹتا جا رہا ہوں
مری توقیر بڑھتی جارہی ہے
مگر میں ہوں کہ گھٹتا جا رہا ہوں
تعاقب میں مرے ‘سورج ہے اور میں
اندھیروں سے لپٹتا جا رہا ہوں
*
ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
کہ گانو جلنے لگا ہے گلی گلی بابا!
درخت کیوں ہیں سراسیمگی کے عالم میں
مچی ہے کیسی پرندوں میں کھلبلی بابا
نہ جانے کیسا بچھا یا تھا جال چوروں نے
کہ آج پھنس گیا سِم سِم میں خود علی بابا
یہ رات یوں بھی ہمیں جاگ کر گزارنی ہے
کہانی کوئی سناؤ بری بھلی بابا
یہاں تو سر ہی نہیں سارا شہر زد میں ہے
ہے کیسی فرقہ پرستی کی اوکھلی بابا
حنائی روح چتاؤں کے پاس گھومتی ہے
یہ کس کا جسم جلا آج صندلی بابا
*
جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہیں پایا
مری آنکھوں نے اب تک خواب کا منظر نہیں پایا
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
شگفتہ جسم سے اُس نے بجھالی پیاس اندھیرے میں
جب اس کا ہاتھ شانے تک گیا تو سر نہیں پایا
ابھی سے جانے کیوں شاہین گھبرانے لگا مجھ سے
مری پرواز نے اب تک کوئی شہپر نہیں پایا
تمہاری بے حسی سے روٹھ کر سوچا تھا مرجاؤں
میں شرمندہ بہت ہوں شاید اب تک مرنہیں پایا
بہت اکتا کے آیاتھا وہ خالی پن سے اندر کے
جو دیکھا غور سے اس نے تو کچھ باہر نہیں پایا
وگرنہ تم مرے ہمدردوں میں شامل نہیں ہوتے
تمہارے ہاتھ نے شاید کوئی پتھر نہیں پایا
یہاں کے پتھروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے
تمہارے شہر نے شاید کوئی آزرؔ نہیں پایا
*
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہوگیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہوگیا
نہ جانے کون سی ادا بُری لگی تھی روح کو
بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہوگیا
معاہدے ضمیر سے تو کرلئے گیے مگر
مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہوگیا
بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی
وجود کا یقیں ہوا‘ وجود ختم ہوگیا
بس اک نگاہ ڈال کر میں چھپ گیا خلاؤں میں
پھر اس کے بعد برف کا جمود ختم ہوگیا
مجاز کا سنہرا حُسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہوگیا
*
سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
مرے خلاف وہ مجھ سا بیان کیا دے گا
ہے طاری سینے میں تاریخی مسجدوں کا سکوت
یہاں پہ کوئی مسافر اذان کیا دے گا
مرے گناہوں پہ رحم آہی جائے گا اس کو
عذاب وہ مرے شایانِ شان کیا دے گا
جو خود محل سے نہ نکلے محافظوں کے بغیر
وہ سارے شہر کو امن و امان کیا دے گا
مجھے یقین ہے زندہ رہے گا آزرؔ بھی
کوئی کسی کی محبت میں جان کیا دے گا
*
نکل بھی جائے وہ اعدا کی گھات سے بچ کر
نہ جاسکے گا کہیں اپنی ذات سے بچ کر
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
تمام عمر بس اپنے بدن میں قید رہے
عجب ملال رہا حادثات سے بچ کر
عذاب راہوں سے بچنا یہاں نہیں ممکن
کہاں ہم آگئے شہرِ نجات سے بچ کر
ہمیشہ مشکلیں رہتیں مرے تعاقب میں
میں بھاگ جاتا اگر مشکلات سے بچ کر
*
جہاں اک خواب تھا لا منظری کا
ہر اک منظر ملا لا منظری کا
مناظر کم نگاہی کے ہیں شاکی
نگاہوں کو گِلہ لا منظری کا
کوئی منظر نہیں اس روشنی میں
بجھا دو یہ دیا لا منظری کا
مری آنکھیں تحیّر ڈھوندتی ہیں
کوئی منظر دکھا لامنظری کا
نظر مجھ پر کوئی ٹھہرے تو کیوں کر
مجھے چہرہ ملا لا منظری کا
اسے سب دیکھ کر حیران کیوں ہیں
یہ ہے ہی آئینہ لا منظری کا
*
نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہے
وہ پھر سے خواب جزیرے پہ لوٹ آیا ہے
وہ مر نہ جائے گناہوں کے بوجھ سے دب کر
تمام نیکیاں دریا میں ڈال آیا ہے
ہوا وجود مٹادیگی ایک لمحے میں
یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے
نہ جانے کس کے تصور میں جی رہی ہوگی
خدا نے جس کو مرے واسطے بنایا ہے
درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن
مرے بدن پہ ابھی میرے سرکا سایہ ہے
اسی غرور میں ہم بھی بہک گیے آزرؔ
کہ اپنے آگے فرشتوں نے سرجھکایا ہے
*
محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا
یہ کیا کِیا کہ فقط آسماں سے پھینک دیا
ہمیں عروج کی حد تک زوال دینا تھا
تری طرح میں اکیلا تو رہ نہیں سکتا
مجھے جہاں میں کوئی ہم خیال دینا تھا
فریب دیتا رہا ہے جو لفظ صدیوں سے
اُسے لغات سے باہر نکال دینا تھا
تمام عمر انہیں خواہشوں کے ساتھ رہے
کہ جن کو وقت کے ہمراہ ٹال دینا تھا
جو ساری نیکیاں دریا میں ڈال آئے ہو
تو پھر گناہ سمندر میں ڈال دینا تھا
*
نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
لگے بجھانے کہ ہمسایے ڈرگیے اپنے
میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کرلوں گا
کہ تم بھی جاؤ‘ سبھی لوگ گھر گیے اپنے
زمانے والے اِسے خود کشی سمجھتے رہے
مری چُھری سے مرا قتل کرگیے اپنے
نئے زمانے کے بچے بڑوں سے کہنے لگے
خوشی مناؤ تمہیں‘ دن گزر گیے اپنے
یہ روزگار کی آندھی عجیب آندھی ہے
ذرا سی تیز ہوئی تھی بکھر گیے اپنے
نہ کوئی دوست‘ نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گیے اپنے
*
(پاکستانی ادب دوست سفارت کار محبوبؔ ظفر کی ہندوستان سے رخصتی پر)
اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہے
شانۂ جاں سے ہمارے‘ سر جدا ہونے کو ہے
پھر ہمارے شہر پر آنے کو ہے شاید عذاب
امن کا اک اور پیغمبر جدا ہونے کو ہے
اب تمازت دھوپ فوجوں کی جلادیگی ہمیں
سبز سایوں کا حسیں لشکر جدا ہونے کو ہے
اب تو بس اپنے بدن ہی میں رہیں گے قید ہم
اب فصیلِ دوستاں سے در جدا ہونے کو ہے
ذوقؔ اب دلّی کی گلیوں میں بھلا رکّھا ہے کیا
شہر سے وہ دلربا پیکر جدا ہونے کو ہے
جو دلوں میں گھر بنا لیتا ہے بس اک آن میں
ہم سے اب وہ شوخ جادوگر جدا ہونے کو ہے
کس قدر گم سم ہیں آزرؔ ساری شاخیں اور طیور
اک پرندہ پیڑ سے اڑکر جدا ہونے کو ہے
*
شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
اب آگ خانۂ نمرود تک پہنچنے کو ہے
ہے جس پہ لکّھا ہوا لا الٰہ الا اللہ
وہ ہاتھ گردنِ مردود تک پہنچنے کو ہے
جو رِستا رہتا ہے ناسورِ جسمِ فردا سے
وہ زہر لمحۂ موجود تک پہنچنے کو ہے
جہاں سے کوئی کہیں راستہ نہیں جاتا
دل ایسی وادئ مسدود تک پہنچنے کو ہے
گناہ لمحوں کے چہرے بتا رہے ہیں کہ اب
یہ دنیا’’نیست سے نابود‘‘ تک پہنچنے کو ہے
اگر نہ بیچ میں حائل ہوئے مرے اعمال
تو پھر دعا مرے معبود تک پہنچنے کو ہے
*
اُس سے نالاں تھے ’’فرشتے‘ وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یا د آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اُس کی
جانے وہ میرے تصور میں ملا کس سے تھا
جانے تا عمر اُسے کس نے اکیلا رکھا
جانے اس شخص کا پیمانِ وفا کس سے تھا
وہ اگر دور تھا مجھ سے‘ تو تھی قربت کس سے
وہ مرے پاس اگر تھا تو جدا کس سے تھا
لاکھ شکوہ ہو سماعت کو صدا سے آزرؔ
روکتا کو ن کسے‘ کوئی رُکا کس سے تھا
*
ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
پر فضاؤں میں آندھیاں تھیں بہت
وہ کسی طور بھی نہ کُھل پایا۔
میری باتوں میں چابیاں تھیں بہت
مسکراتی تھیں ساری دیواریں
اور گھر میں اداسیاں تھیں بہت
تیری سیرت پسند تھی ورنہ
تیری صورت کی لڑکیاں تھیں بہت
خامشی اس کی جان لیوا تھی
اور باتوں میں تلخیاں تھیں بہت
بس نگاہوں سے گرگیا آزرؔ
ورنہ اُس میں بھی خوبیاں تھیں بہت
*
سُنا سُنا کے بہاروں کی داستاں لمحے
مرے وجود میں حل ہوگئے خزاں لمحے
میں آفتاب کی صورت چمک اٹھا ورنہ
چراغ لے کے مجھے ڈھونڈتے کہاں لمحے
وہ میری روح کی تہہ میں نماز پڑھتا رہا
اور اس کے جسم میں دیتے رہے اذاں لمحے
مجھے زمیں کی کشش نے کہیں نہ جانے دیا
صدائیں دیتے رہے لاکھ آسماں لمحے
تمام عمر چراتے رہے نظر مجھ سے
مرے مزاج کے صحرا میں سائباں لمحے
*
میں جب مصیبت میں برگزیدہ کتا ب دیکھوں
تو اپنی ہی زندگی کا بدلا نصاب دیکھوں
مرے خدا میں کبھی نہ پھر ایسا خواب دیکھوں
کہ ننّھی کلیوں کی پنکھڑی بے حجاب دیکھوں
نظر بچاؤں تو اور بھی بد نما ہو منظر
نظر اٹھاؤں تو چاروں جانب عذاب دیکھوں
الٰہی میرے قلم کو وہ قوّتیں عطا کر
کہ میں فلک پر سوال لکّھوں‘ جواب دیکھوں
کبھی تو مظلومیت کو بھی کچھ ملے سہارا
کبھی تو ان ظالموں کا خانہ خراب دیکھوں
*
کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جائے
مجھے ڈر ہے علامت استعارہ ہو نہ جائے
فضاؤں میں دھوئیں کے گیند کھیلے جارہے ہیں
اسی بازی میں گم ماحول سارا ہو نہ جائے
وگرنہ جنگ کایہ لطف بھی جاتا رہے گا
اِکائی دشمنوں کی پارہ پارہ ہو نہ جائے
ابھی تو دیکھنا ہے سارا پس منظر خلا کا
نگاہِ جستجو صرفِ نظارہ ہو نہ جائے
وہی اک بات جو اس کو بتانا چاہتا ہوں
وہی اک بات اس پر آشکارا ہو نہ جائے
اجل کا سامنا تو کیسے کرپائے گا آزرؔ
تجھے یہ زندگی یوں ہی گوارہ ہو نہ جائے
*
یوں ہی سہی چلو کوئی رشتہ بنا رہا
قائم تمام عمر اگر فاصلہ رہا
سب اپنی اپنی منزلِ مقصود پاگئے
کربِ انا لیے میں فقط سوچتا رہا
پھر یو ں ہوا کہ میں نے اسے بھی پناہ دی
صدیوں جو میری جان کا دشمن بنا رہا
اک سِلسلہ بنا رہا یوں ہی تمام عمر
جو لمحہ میرے ساتھ رہا سانحہ رہا
میں بھی نکل نہ پایا تکلف کے دور سے
وہ بھی بڑے ادب سے مجھے چاہتا رہا
*
تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر تھی
کسے خبر تھی نہیں ہے کوئی وجود اس کا
وہ ایک شے جو مری جستجو کا محور تھی
خدا ہی جانے وہ منزل تھی یا سراب کوئی
تمام عمر مسافت مرا مقدر تھی
نہ جانے کیوں میں سناتا تھا بار بار اُسے
وہ ایک بات جو اس کی سمجھ سے باہر تھی
مرے کلام نے آخر جھنجھوڑ ڈالا اُسے
مری غزل ہی مرا آخری پیمبر تھی
خموش‘ اُداس بلا کی حسیں مگر بے حس
وہ بنتِ حوّا تھی یا شاہکارِ آزرؔ تھی
*
پھر مفاہیم میں الفاظ کے وسعت آجائے
کاش ایسا ہو کہ پھر عہدِ رسالت آجائے
فاصلہ ساتھ نبھانے کو ہے لازم ورنہ
سورج آجائے زمیں پر تو قیامت آجائے
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آجائے
اتنے شل ہیں کہ نہیں اٹھتے دعاؤں کے لیے
کچھ تو یارب مرے ہاتھوں میں حرارت آجائے
علم کے بدلے جو کچھ سیکھ رہے ہیں بچے
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ پھر عہدِ جہالت آجائے
*
شدید غم سے میرا کوئی سلسلہ نہیں ملا
یہی سبب ہے غالباً مجھے خدا نہیں ملا
پیمبرانِ شاعری کی صف میں ہم بھی ہیں مگر
یہ اور بات ہے کہ کوئی معجزہ نہیں ملا
کہاں سے دیکھتا میں تیرے خوبرو جہان کو
ہزار خواہشیں تھیں کوئی زاویہ نہیں ملا
زمین گھر چکی تھی سرد آگ کی لپیٹ میں
جہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا
سماعتوں پہ اپنی سب کو اعتماد تھا مگر
کسی کو اجنبی صدا کا نقشِ پا نہیں ملا
حصارِ کائنات سے نکل کے ڈھوندتے تجھے
مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا
*
تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے والا
اب یہاں کوئی پیمبر نہیں آنے والا
اپنی آنکھوں کو رکھو پشت کی جانب اپنی
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آنے والا
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
لاکھ دہرائے یہ تاریخ خود اپنے کو مگر
وہ حسیں دور پلٹ کر نہیں آنے والا
ہم تو یک طرفہ محبت کے ہیں قائل آزرؔ
چاند تو یوں بھی زمیں پر نہیں آنے والا
*
دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھوندتے ہیں
ہم سے بزدل یوں بھی جینے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں
اے زمیں تیری کشش کیوں اس قدر کم ہوگئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
جو حدِ امکان سے بھی دور ہوتا جارہا ہے
ہم وہی کھویا ہوا زرّیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
بے حسی سی ہر گھڑی کیوں ہم پہ ہوجاتی ہے طاری
ہر گھڑی کیوں وقت کا اک تازیانہ ڈھونڈتے ہیں
جب کوئی چہرہ ہمارے خواب میں آیا نہیں تھا
اپنی تنہائی کا وہ رنگیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
*
حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا
وہ باڑھ آئی کہ بہنے لگا مرا چھپر
میں جس پہ بیٹھا مناظر کا لطف لیتا رہا
گزشتہ دور کی بوباس لے کے آئی تھی
میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا
یہ سوچ کر کہ کبھی فاختہ تو آئے گی
وہ گِدّھ شاخ پہ زیتون کی ہی بیٹھا رہا
پکارے گا ہی کوئی سنگِ ناتراشیدہ
اسی امید پہ آزرؔ ہمیشہ تنہا رہا
*
وہ دست رس سے دعاؤ ں کی‘دور تھا کتنا؟
یہ مرحلہ تھا مگر صبر آزما کتنا!
مجھے پھر اس سے تعلق بحال کرنا پڑا
وہ شخص مجھ سے بچھڑ کر اداس تھا کتنا!
اس انتشار کی اک حد بھی تو معیّن ہو
مجھے اب اور بکھیرے گی یہ ہوا کتنا!
مری نگاہ اٹھی جب کسی بدن کی طرف
مرا ضمیر ہوا بے سبب خفا کتنا !
میں دور تھا تو کشش کھینچ لے گئی آزرؔ
قریب پہنچا تو منظر بدل گیا کتنا
*
لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی تھیں
اس کی غزل میں فکر کی گہرائیاں بھی تھیں
ورنہ مرا وجود مجھے مار ڈالتا
شامل مرے مزاج میں خوش فہمیاں بھی تھیں
وہ میرا ہم خیال بھی بالکل نہ تھا مگر
اس کو مرے خیال سے دلچسپیاں بھی تھیں
کچھ اُس کو دیوتا کی طرح مانتا بھی تھا
کچھ اِس میں میری اپنی اداکاریاں بھی تھیں
جس کو بھی دیکھ لے وہ مریض اس کا ہوگیا
آنکھوں میں اس کی چھوت کی بیماریاں بھی تھیں
*
وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
خوش فہمیاں بھی مجھ سے مری چھین لے گئی
گزرے گی بے اصول مری زندگی تمام
اک لڑکی میرے جینے کا آئین لے گئی
حدِّ نگاہ تک ہے خلاؤں کا سلسلہ
وہ مجھ سے سارے انجم و پروین لے گئی
اب زندگی سے موت لڑے گی تمام عمر
ہونٹوں سے جان سورۂ یٰسین لے گئی
ڈھیلا ذرا ہوا تھا مرے ہاتھ سے لگام
آندھی سَمے کی عہدِ سلاطین لے گئی
اب پتھروں کے شہر میں رہنے سے فائدہ؟
آزرؔ جب اپنا فن ہی زمیں چھین لے گئی
*
نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
اسے بھی لے گئی بہلا کے بین کی خوشبو
گلاب اگے تھے مرے شہر کے ہر آنگن میں
مگر فضا میں تھی رقصاں مشین کی خوشبو
مرے وجود کا مجھ کو دلا گئی احساس
مرے گمان سے لپٹی یقین کی خوشبو
نہ جانے کون سی مٹی پڑی تھی گملوں میں
گلاب دینے لگے یاسمین کی خوشبو
میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی
مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو
بس ایک آن میں سارے جہاں میں پھیل گئی
بتوں کے شہر سے اٹّھی جو دین کی خوشبو
*
عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
میری دیوانگی کو سجدہ کر
مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے
تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر
مدتوں سے مراہوا ہوں میں
مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر
یا حقیقت کا رنگ دے اس کو
یا مرے خواب میں نہ آیا کر!
توڑنے والا جب ملا نہ کوئی
رہ گئے پھول کتنے مرجھا کر
اب خلا کے بدن پہ آنکھوں سے
اپنے آزرؔ کا نام لکھا کر
*
تھا موم دل تو لوگ ستاتے رہے مجھے
پتھر بنا تو مجھ کو سبھی پوجنے لگے
میرے قریب رہ کے اگر ہو اداس تم
پھر مجھ سے دور جاکے بھی خوش رہ نہ پاؤگے
دہرا گیا وہ شخص مری بات اس طرح
دینے لگے تھے لفظ بھی معنٰی نئے نئے
نزدیکیوں نے سارا بھرم دور کردیا
کچھ لوگ صرف دور سے اچھے لگے مجھے
اکثر نگاہِ ذہنِ رسا نے بچا لیا
ہم جب بھی دل کے ساتھ کہیں ڈوبنے لگے
*
نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہوگا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
دلِ حزیں کو اب اُن موسموں کا باب تو دے
ہے اعتماد‘ حقیقت کا روپ دیدوں گا
مری نگاہ کو خوش فہمیوں کا خواب تو دے گا
تجھے بھی جاوداں کردے تری غزل آزرؔ
جہانِ شعر کو اک ایسا انتخاب تو دے
*
چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ کو
اڑا ہی لے گیا صحراؤں کا سفر مجھ کو
کہیں میں بھول نہ جاؤں تجھے بھی میرے خدا
خوشی کا زعم ہٹا اور اداس کر مجھ کو
کہیں وجود مٹا دے نہ آفتاب آکر
بلا رہی ہے کوئی شبنمِ سحر مجھ کو
تو میرے سایے میں آنے کی آرزو مت کر
بنا گیا ہے کوئی آگ کا شجر مجھ کو
ا
سے خبر تھی کہ میں اس کو توڑ ڈالوں گا
پکارتا ہی رہا آئینہ مگر مجھ کو
مرے شعور نے مجھ کو بلالیا واپس
لگا دیا تھا مرے دل نے داؤ پر مجھ کو
*
اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
لیکن خود اس سے‘ اس کا بہت اختلاف تھا
الزام کیا میں دیتا وبھیشن کی ذات کو
مجھ سے ہی جب لہو کا مرے انحراف تھا
اندھا نہ تھا کوئی بھی مرے شہر میں مگر
اک بے حسی کا سب کی نظر پر غلاف تھا
یوں لمحہ لمحہ ختم ہوا جارہاتھا وہ
جیسے کہ اس کی روح میں کوئی شگاف تھا
آزرؔ کی بت تراشی سے واقف تھے سب مگر
آزرؔ غزل تراش ہے یہ انکشاف تھا
*
بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھی
وہ حسنِ سورۂ رحمن لے کے آئی تھی
بڑا عجیب تھا مصنوعی موسموں کا سفر
بہار کاغذی گلدان لے کے آئی تھی
گئی تو پھر نہ ملا بیسویں صدی کا سراغ
نیا زمانہ‘ نئی شان لے کے آئی تھی
یہ اور بات ہمیں کم شناس تھے ورنہ
وہ ایک عہد کی پہچان لے کے آئی تھی
کل اُس سے عہدِ وفا میں ہی لے نہیں پایا
وہ اپنے ہاتھوں میں قرآن لے کے آئی تھی
پھر اس کے بعد بنی شاہکارِ آزرؔ وہ
جو اپنے جسم کی چٹان لے کے آئی تھی
*
شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
صبح کا آدمی شام تک بک گیا
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
چند چاول کے دانوں نے دکھلایا رنگ
اور دھرتی کے ہاتھوں فلک بک گیا
شام کو ہی خریدا تھا خود کو مگر
پھر ضرورت پڑی صبح تک بک گیا
جس کے ہاتھوں کی مہندی خریدی گئی
اس کے اجداد کا گھر تلک بک گیا
جانے کیا شے خریدی ہے اس نے ابھی
اس کے چہرے کا آزرؔ نمک بک گیا
ڈاکٹر فریاد آزرؔ
کچھ دن
گلوبل گانو میں
*
آزماکر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
ٖننھا کمپیوٹر! قلم، کاپی، کتابوں کی جگہ
اِس قدر سوچا نہ تھا ہوجائیں گے بستے جدید
ہوگیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید
کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید
دادی اور نانی کے قصوں میں مزہ آتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچے ا نھیں قصے جدید
سب سنائی دیتا ہے آزر ؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
نوٹ:- غالباً اس طرح کے صوتی قافیوں کا تجربہ غزل میں پہلی بار کیا جارہا ہے
*
اُس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اُسی کے خون کا پیاسا لگا
قہقہوں سے ایک عرصہ تک اذاں سہمی رہی
اور پھر اُس گھر میں عبرت ناک سناٹا لگا
نیکیوں کی فصل ساری کاٹنا چاہے ابھی
دوسرے موسم سے دل اِس درجہ لا پروا لگا
ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھا جس کا رکھ رکھاؤ
زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا
یاد تھے اس کو کتابِ زندگی کے سب حقوق
اپنی ذمہ داریوں سے جو سدا بچتا لگا
مدتوں کے کھوئے بھائی کو وطن میں دیکھ کر
میرے خوابوں کو اچانک زور کا جھٹکا لگا
اس کو اپنے غم سے بھی اتنی پریشانی نہ تھی
میری خوشیاں دیکھ کر جتنا اسے صدمہ لگا
جس کو اپنی ذات میں اک انجمن کہتے ہیں لوگ
غور سے دیکھا تو آزرؔ بے کراں تنہا لگا
*
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات
تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں
نام ان کو دے دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات
سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے یہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
شہروں میں اک شہر تھا بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
*
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم ؑ کی اولا د ہے
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
آج بھی مرہونِ منت ہے "سہاروں" کا ادیب
کیا عجوبہ ہے کہ خالق سے بڑا نقاد ہے
ابتداءًً دل کی گہرائی میں اترا تھا کبھی
اب زبان و لب پہ ہی اسلام زندہ باد ہے
اور کچھ بتلاتے ہیں اعمال ہم سب کے مگر
عظمتِ رفتہ کا ہم سب کو ترانہ یاد ہے
ایسا لگتا ہے کہ شاید ہو گیا قیدی فرار
اب تو رمضانوں میں بھی ابلیسیت آزاد ہے
*
اس نے میرا نام شوریدہ سروں میں لکھ دیا
اور خود کو امن کے پیغمبروں میں لکھ دیا
جب ملا تبدیلئ تاریخ کا موقع اُسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا
شاہی محلوں سے مٹاکر مجھ کو بے حس وقت نے
جا بہ جا سہمے شکستہ مقبروں میں لکھ دیا
جب کتابوں کے لگے انبار تو میں نے بھی پھر
ایک سا مضمون سارے تبصروں میں لکھ دیا
میں نے اُس کو ناقدِ اعظم کہا کچھ سوچ کر
اُس نے مجھ کو عصر کے دیدہ وروں میں لکھ دیا
میں نے یوں ہی نام آزرؔ رکھ لیا تھا بے سبب
اُس نے بھی میرا مقدر پتھروں میں لکھ دیا
*
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے پھر
پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھارہی ہے پھر
دوبارہ چکھ لیا نہ ہو ممنو عہ پھل کہیں
وہ بے لباسیوں میں گھری جارہی ہے پھر
ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں
اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر
اس نے تو جڑسے کاٹ دیا تھا روایتاً
یہ سبز گھاس ہے کہ اُگی آرہی ہے پھر
*
وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا
اب اِس زمیں پہ حسیں انقلا ب اترے گا
وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اُس پر عذاب اترے گا
ہم اس بھرم میں سیاہ و سفید سے بھی گئے
کہ سونی آنکھوں میں رنگین خواب اترے گا
نہ ٹوٹ جائے کہیں خوبصورتی کا بھرم
سنا ہے چہرے سے اس کے نقاب اترے گا
بلا سے نقرئی کالج میں داخلہ نہ ملے
نہ بچیوں کے سروں سے حجاب اترے گا
بہا رہا ہے زمیں پر وہ خون بے پایاں
تو کیا فلک سے بھی کوئی جواب اترے گا؟
*
ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی
وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی
خود کو میں جمع کروں گا یونہی ریزہ ریزہ
روز مجھ کو یونہی تقسیم کرے گا وہ بھی
میں بھی موسم کو محبت کی ضمانت دوں گا
ختم نفرت کے جراثیم کرے گا وہ بھی
ایک پر ذات تو دوجے پہ لکھے گا آفاق
شخصیت کو مری دو نیم کرے گا وہ بھی
میں بھی تبدیل کروں گا ذرا اندازِ نظر
کچھ نہ کچھ حسن میں ترمیم کرے گا وہ بھی
جن کو صدیوں نے بکھرتے ہوئے دیکھا آزرؔ
اب انہیں خوابوں کی تنظیم کرے گا وہ بھی
*
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کو ئی نہیں
جانتے سب ہیں مجھے، پہچانتا کو ئی نہیں
جب سے میں نے گفتگو میں جھوٹ شامل کرلیا
میری باتوں کا برا پھر مانتا کو ئی نہیں
آج کل ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے مگر
یہ سنہرا عز م دل میں ٹھانتا کو ئی نہیں
کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب
یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کو ئی نہیں
اپنے اپنے زعم میں ہے مبتلا ہر آدمی
ایک دوجے کو یہاں گر دانتا کو ئی نہیں
میں نے جو کچھ بھی کہا ، سچ کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پھر بھی آزرؔ بات میری مانتا کو ئی نہیں
*
بے کراں شہرِ طلسمات سے آزادی دے
مجھ کو خوابوں کی حوالات سے آزادی دے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ "اوزون" کو فضلات سے آزادی دے
تھک گیاہوں تری شطرنج کی بازی سے بہت
زندگی مجھ کو شہ و مات سے آزادی دے
یہ بدل دیں نہ جہنم میں زمیں کی جنت
اس پرستان کو جنّات سے آزادی دے
ایک مدت ہوئی محبوب وطن سے نکلے
اب سکندر کو فتو حات سے آزادی دے
میں بھی کچھ زینتِ آفاق بڑھاؤں شاید
تو اگر مجھ کو غمِ ذات سے آزادی دے
اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی سیاہی کو ہٹا
دن دکھا مجھ کو بھی اب رات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آجائے قیامت آزرؔ
"گرین ہاؤس "کو بخارات سے آزادی دے
*
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہے حقیقت بھی
اب اپنی اپنی قسمت کس میں کب تک کون رہتا ہے
یہ دنیا ایک تمثیلی جہنم بھی ہے، جنت بھی
اُدھر احباب مجھ سے زندگی جینے کو کہتے ہیں
اِدھر یہ مسئلے دیتے نہیں مرنے کی فرصت بھی
بلا ئیں کیوں چمٹ جاتی ہیں بھولے بھالے لوگوں سے
نہیں آتا ہے کیوں اب ظالموں پر عکسِ آفت بھی
خدا محفوظ رکھے آپکے دامِ شرافت سے
ہمیں معلوم ہے شامل ہے اِس میں شر بھی، آفت بھی
*
گھٹ گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
کس کو خبر تھی خلد سے آکر زمین پر
فتنے بپا کرے گا یہ گز بھر کا آدمی
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اُسے سمجھتے تھے دفتر کا آدمی
میں وقت پر وہاں بھی نہ پہنچا تھا عادتاً
کب سے پکارتا تھا مقدر کا آدمی
وہ شخص موقع ملتے ہی بن بیٹھا راکشس
گھر والے مانتے تھے جسے گھر کا آدمی
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
*
صدیوں سے بھی عظیم تھی لمحے کی زندگی
جب جی گیا تھا میں بھی مدینے کی زندگی
بدلے میں اُس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
ہم نے گزاردی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
وہ آدمی جوان رہے گا تمام عمر
بچپن میں جی چکا ہے وہ بوڑھے کی زندگی
ظالم حقیقتوں نے مجھے پھر جگا دیا
کتنی حسین تھی مرے سپنے کی زندگی
یوں بے نیازیوں میں کٹی ہے تمام عمر
ہم جیسے جی رہے تھے کرائے کی زندگی
اُس سادہ دل سے مل کے مجھے بھی یہی لگا
اب تک میں جی رہا تھا دکھاوے کی زندگی
آزر ؔ کی زندگی بھی لطیفے سے کم نہ تھی
تھی کتنی کرب ناک لطیفے کی زندگی
*
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے
میں سر اٹھاہی نہ پاؤں زمانا چاہتا ہے
جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے وہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
مرے وجود سے اِس درجہ خوف ہے اُس کو
کہ میرا نام ونشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
یہ کس چراغ کا جن ہے جو سارے عالم سے
چراغ امن و اماں کے بجھانا چاہتا ہے
میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کا مگر
وہ اپنے آگے مرا سر جھکا نا چاہتا ہے
میں معترض بھی نہیں اُس کے قہقہوں پہ مگر
مجھے رُلا کے ہی وہ مسکرانا چاہتاہے
*
تخیلات میں پھر تاج وتخت اُگنے لگے
زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اُگنے لگے
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اُسی زمین سے ہم لخت لخت اُگنے لگے
پھر انتخاب کا موسم گزرگیا شاید
پھر اُس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اُگنے لگے
کچھ اِس طرح انھیں بے رحمیوں سے کاٹا گیا
نحیف پودوں کے پتے بھی سخت اُگنے لگے
خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت
کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اُگنے لگے
تو کیا ہمیں بھی سفر کا پیا م آنے کو ہے
خیال و خواب میں کیوں سبز رخت اُگنے لگے
*
شبِ سیاہ سے اگتی ہوئی سحر دیکھیں
چلو اندھیرے میں اک تیر مار کر دیکھیں
ملے تو پہلے زمیں کی کشش سے آزادی
کہاں تک اڑتے ہیں پھراپنے بال وپر دیکھیں
بس اک جگہ پہ زیادہ ٹھہرنا ٹھیک نہیں
کہو بلاؤں سے اب اور کوئی گھر دیکھیں
جو مل سکا نہ ہمیں آسمان سے اب تک
چلو زمین سے ہی اب کے مانگ کر دیکھیں
سنا ہے پیار عبادت سے کم نہیں آزرؔ
یہ بات سچ ہے تو ہم بھی کسی پہ مر دیکھیں
*
یہ اور بات کہ لمحوں میں ڈھل گئیں صدیا ں
حصارِ وقت سے باہر نکل گئیں صدیاں
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پانؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
وہ الفیوں سے بھی برتر ہے تھی خبر کس کو
سو جزوِ خاک کی عظمت سے جل گئیں صدیاں
وہ لمحہ سرورِ عالم کو جب ملی معراج
اُسی کے صدق�ۂجاں سے سنبھل گئیں صدیاں
کبھی کبھی ہوئے تخلیق پل بہ پل دیوان
کبھی کبھی تو مری بے غزل گئیں صدیاں
حقیر قصبوں کو دے دے کے رنگ عظمت کا
عظیم شہروں کا نقشہ بدل گئیں صدیاں
*
مطلع برائے نام غزل کا ضرور تھا
لیکن پھر اُس کے بعد قلم بے قصور تھا
سرحد پہ میرے مدِمقابل تھا جو بھی شخص
وہ بھی نہ جانے کتنے دلوں کا سرور تھا
اُس نے مجھے بکھیر رکھا تھا اِدھر اُدھر
لیکن مجھے بھی نظمِ غزل کا شعور تھا
وہ ہوگیا قلم تو ملا بے کراں سکوں
کس درجہ بار ہم پہ سرِ پُرغرور تھا
سب خوش ہیں آج اُس کو اندھیروں میں پھینک کر
جو اپنے آپ میں کبھی مینارِ نور تھا
اب اُس کو پاکے میں بھی بہت غم سے چور ہوں
وہ مجھ سے دور رہ کے کبھی غم سے چور تھا
*
اک بلا سرسے اترنے بھی نہیں پاتی ہے
دوسری آکے رگِ جا ں سے چمٹ جا تی ہے
چھین لینے کو ہے بیتاب مرے سارے حقوق
کیا سیاست ہے مساوات سے گھبراتی ہے
اُس نے بچپن میں اڑایا تھا درختوں کا مذاق
آج سایے کو جوانی اُسے ترساتی ہے
اور کون آئے گا اِس وقت گزیدہ کے قریب
اک تری یاد ہے آتی ہے، چلی جا تی ہے
فرق انسانوں، مشینوں میں سمجھنا مشکل
زندگی شہر کی اِس درجہ طلسماتی ہے
یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں بھول چکا ہے آزرؔ
اب ہمیں بھی کہاں اُس شخص کی یا د آتی ہے
*
ذلیل خود کو، اُسے باوقار کر نا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کر نا پڑا
وہ میری جان ہی لینے پہ تُل گیا تو پھر
اُسی کے تیر سے اُس کا شکار کر نا پڑا
وہ کام جس کو میں ادنا سمجھ رہا تھا بہت
وہ کام مجھ کو بصد افتخار کر نا پڑا
ہوا کی بات شرافت سے جب سنی نہ گئی
اُسے بھی لہجہ نیا اختیا ر کر نا پڑا
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اُس کو مجھے بار بار کر نا پڑا
اسے زمین بہت تنگ آرہی تھی نظر
اسے ہواؤں کے رتھ پر سوار کرنا پڑا
*
کسی بھی حال میں مر نا پڑے گا اُس کو بھی
وہ وقت ہے تو گزر نا پڑے گا اُس کو بھی
عظیم ہے تو اُسے عظمتوں کا پاس رہے
رذیل ہے تو سدھرنا پڑے گا اُس کو بھی
میں اپنا اسلحہ سارا تباہ کردوں مگر
اسی عمل سے گزرنا پڑے گا اُس کو بھی
وہ آسمانوں پہ کب تک اڑے گا آخرکار
اِسی زمیں پہ اُترنا پڑے گا اُس کو بھی
نگاہِ نقد رکھے دوسروں پہ خوب مگر
اب اپنا تجزیہ کرنا پڑے گا اُس کو بھی
اکیلے میں ہی اِسے ختم کیوں کروں آزر ؔ
اب اِس خلیج کو بھرنا پڑے گا اُس کو بھی
*
مجھے بھی کرنا پڑاتھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں، گھر جہنم میں
فضائے آتشِ گجرات سے جو بچ نکلے
پرندے پھر نہ گئے لوٹ کر جہنم میں
ملی تھی جب اسے جنت تو خو ش نہ تھا اتنا
وہ جتنا خوش ہے مجھے دیکھ کر جہنم میں
وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے
کہ اُس کے پانو ہیں جنت میں، سر جہنم میں
فرشتے بولے جو چاہے جہاں چلا جائے
وہ شخص کود پڑا بے خطر جہنم میں
کہ جن کو دیکھ کے ذرے بھی محوِحیرت تھے
بڑے بڑے ملے شمس و قمر جہنم میں
اُسے بشارتِ جنت ہوئی تو حیرت کیا
گزارے اُس نے تھے شام و سحر جہنم میں
بچانا چاہ رہا ہوں اُسے جہنم سے
وہ جانا چاہ رہا ہے مگر جہنم میں
*
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
جہاں رستہ ہے ملکِ آخرت کا
سفر میں کیوں یہ گھر پھیلا رہا ہے
فضائے شہر آلودہ بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
وہ امن و آشتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
اتارا تھا زمیں پر تو نے جس کو
فلک تک پھر اثر پھیلا رہا ہے
جو تیرے در سے کتراتا تھا آزرؔ
وہ دامن در بدر پھیلا رہا ہے
*
مدتوں کا مسئلہ لمحوں میں حل ہوجائے گا
صفحۂ تاریخ میں ردّو بدل ہوجائے گا
جس کی باتوں میں عجب پیغمبرانہ شان تھی
کیا خبر تھی وہ بھی اتنا بے عمل ہو جائے گا
نذر ہوجائے گا ماضی کی یہ قتلِ عام بھی
رفتہ رفتہ درد بالکل نارمل ہو جائے گا
مسئلوں سے لڑکے ہی نکھرے گا حسنِ شخصیت
جو بھی اس کیچڑ سے ابھرے گا کنول ہوجائے گا
میں نے تھوڑی سی جگہ دی تھی جسے دل میں، وہ درد
کیا خبر تھی زندگی کا ماحصل ہو جائے گا
سانپ گر حالات کے ڈستے رہے آزرؔ تو پھر
اور ہی کچھ اپنا اندازِ غزل ہوگائے گا
*
ارادہ کب تھا اس کا خود کو دریا میں ڈبونے کا
اسے بس شوق تھا بہتی ندی میں ہاتھ دھونے کا
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
یہ تیرا ہی کرم ہے ورنہ کب یارا ہی تھا یارب !
مری نازک مزاجی کو غموں کے بار ڈھونے کا
ہوا کیا گر نگاہِ خامۂ تنقید ہے بے حس
مجھے خود بھی نہیں احساس اب کچھ اپنے ہونے کا
مجھے کب تلخیِ حالات نے موقع دیا جانم
سنہرے نرم رو الفاظ میں تجھ کو پرونے کا
جنابِ میرؔ بھی میری طرح مغموم تھے لیکن
مجھے موقع ہی کب ملتا ہے آزرؔ رونے دھونے کا
*
شکستہ آج کو کل سے جدا نہ کر پایا
وہ مقبرے کو محل سے جدا نہ کر پایا
اُسے بھی خود پہ بڑا اعتماد تھا لیکن
وہ مشتری کو زحل سے جدا نہ کر پایا
میں خواہشوں کو قناعت پہ کر چکا راضی
نگاہِ صبر کو پھل سے جدا نہ کر پایا
ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں
میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا
ہزار چاہا کہ دونوں میں رابطہ نہ رہے
پہ کیچڑوں کو کنول سے جدا نہ کر پایا
رواج شہر کے اپنا چکا مگر آزرؔ
مزاج دشت و جبل سے جدا نہ کر پایا
*
واقعیت کہیں کھل جائے نہ، گھبراتے ہیں
ہم وہ اکثر نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں
ہم ہیں پروردہ ہی کچھ ایسے مواسم کے ،کہ اب
دھوپ کیا سایۂ دیوار سے جل جاتے ہیں
ظلم کا سر نہ کچل پائے تھے اجداد، سو ہم
آج نا کردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں دیدۂ بینا نے کبھی
ہم اُسی خواب کی تعبیر سے گھبراتے ہیں
ہم جو لڑ پڑتے ہیں گھر میں کبھی بچوں کی طرح
پھر ہمیں بچے بڑوں کی طرح سمجھاتے ہیں
حق نمازوں کا ادا ہونہ ہو آزرؔ لیکن
ہم بھی مسجد میں چلے جاتے ہیں ہو آتے ہیں
*
علم اتنا تھا کہ آئی ہے گزر جائے گی رات
کیا خبر تھی میرے ہی گھر پر ٹھہرجائے گی رات
کیا خبر تھی بیکراں تاریکیوں کے باوجود
ایک جگنو کی ضیا باری سے ڈرجائے گی رات
متحد ہوکر نہ سورج کی طرح چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنوؤں کے پر کتر جائیگی رات
جب لگے گا اُس کو خود اپنی ہی تاریکی سے خوف
آسماں کی مانگ پھر تاروں سے بھر جائے گی رات
ہونے ہی والا ہے مشرق سے اجالے کا ظہور
خود ہی مغرب کے اندھیروں میں اترجائے گی رات
آخرش کب تک یوں ہی ٹھہرا رہے گا وقت بھی
غم نہ کر آزرؔ کسی صورت گزر جائے گی رات
*
حویلیوں سے بھی چھپر عظیم ہوتے ہیں
کہیں مکان، کہیں گھر عظیم ہو تے ہیں
عظیم وہ نہیں لڑکر جو ملک فتح کرے
عظیم خود سے ہی لڑکر عظیم ہوتے ہیں
غرور کیجے نہ دستار کی بلندی پر
کہیں کلاہ، کہیں سر عظیم ہوتے ہیں
انہیں کو وقت بناتا ہے محترم اکثر
جو اس کی ٹھوکریں کھا کر عظیم ہوتے ہیں
زبانِ اردو ہے کتنی عظیم مت پوچھو
کہ جس کے سارے سخن ور عظیم ہوتے ہیں
جنہیں کہیں بھی کوئی پوچھتا نہیں آزر ؔ
وہ میری رائے میں اکثر عظیم ہوتے ہیں
*
ظلم سے یکسر زمیں کو پاک ہونا چاہئے
ظالموں کو اب سپردِ خاک ہونا چاہئے
اس نے بھی نہریں بہائی ہیں ابلتے خون کی
خاتمہ اس کا بھی عبرت ناک ہونا چاہئے
کچھ بھی کہہ دیتا ہے وہ گزرے دنوں کے نام پر
آج ماضی کا بھی سینہ چاک ہونا چاہئے
انؐ کو اپنے جیسا کہنے والے جاہل شخص کو
کچھ خیالِ آیتِ لولاک ہونا چاہئے
جس کو بھی دیکھو بنا جاتا ہے اکثر بے وقوف
اب شریفوں کو بھی کچھ چالاک ہونا چاہئے
موت سے ملتے ہوئے بالکل ہی گھبراہٹ نہ ہو
زندگی کو اس قدر بے باک ہونا چاہئے
*
سب سمجھتے ہیں کہ ہے کتنی گرانی پھر بھی
خون کی طرح بہا دیتے ہیں پانی پھر بھی
میں گلا گھونٹے ہی رکھتا ہوں ہمیشہ اس کا
چیخ پڑتا ہے مرا دردِ نہانی پھر بھی
مشورے عقل کے اس سے تو کہیں بہتر تھے
حضرتِ دل نے کوئی بات نہ مانی پھر بھی
پوچھتا رہتا ہے اوروں سے سدا چھپ چھپ کر
مجھ سے سنتا ہی نہیں میری کہانی پھر بھی
مجھ کو جنت کی بھی عظمت سے نہیں کچھ انکار
خوب صورت سا لگا عالمِ فانی پھر بھی
ایک اک لفظ سے سچائی کی بو آتی ہے
کتنی دلچسپ ہے آزرؔ کی کہانی پھر بھی
*
خود اپنی گود میں ہی اس نے خود کو پالا تھا
خود اپنی موت پہ آنسو بہانے والا تھا
بس اک امید کا دامن بچا تھا میرے لیے
اسے بھی تلخ حقائق نے پھاڑ ڈالا تھا
نہ جانے کیسے جیا ہوگا وہ کہ اس کے پاس
بس ایک دل ہی تھا اور وہ بھی چھننے والا تھا
وہ شخص پھر بھی نہ پہنچا سحر کی سرحد تک
اندھیری شب میں بھی امید کا اجالا تھا
پڑی ہوئی تھی کوئی بددعا مرے پیچھے
میں ورنہ کب تری باتوں میں آنے والا تھا
بس ایک شہرِ غزل راس آیا تھا آزرؔ
وہاں بھی حضرتِ غالبؔ کا بول بالا تھا
*
اس نے کیا مذاق مری زندگی کے ساتھ
بویا کسی کے ساتھ تو کاٹا کسی کے ساتھ
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
اچھا ہوا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے
بھُن جاتے ورنہ وہ بھی کسی "بیکری" کے ساتھ
سب اشتہار بازی میں مصروف تھے مگر
اک شخص کام کرتا رہا خامشی کے ساتھ
یہ اور بات ہے کہ خدا نے بچا لیا
میں جنگ لڑ رہا تھا بڑی بزدلی کے ساتھ
خود سے رہا تھا دست و گریباں کچھ اِس قدر
وہ شخص زندگی میں نہ الجھا کسی کے ساتھ
*
بے فکریوں کی عمر تو لمحوں میں کٹ گئی
پھر جونک مسئلوں کی صدی سے لپٹ گئی
ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانوں میں بٹ گئی
بے ربط ہو چلے ہیں مواسم کے سلسلے
شاید زمین اَبلقِ محور سے ہٹ گئی
اک سال تیری عمر بڑھی ہے مبارکاں!
اک سال زندگی بھی مگر اور گھٹ گئی
جو آسمان چوم رہی تھی روایتاً
وہ آخری پتنگ امیدوں کی کٹ گئی
تھا مسئلوں کا ذہن میں کچھ شور اِس قدر
پھر زندگی میں نیند نہ آئی اچٹ گئی
*
میری خواہش کے مطابق سامنے دریا رہا
میری قسمت کے مطابق میں سدا پیا سا رہا
اُس نے والد کی نہ مانی تھی فقط اک بات اور
زندگی میں دیر تک پھر قہر سا برپا رہا
کیسے کیسے حادثے گزرے تھے ماضی میں ،کہ میں
اپنے ہی اشعار پڑھ کر دیر تک روتا رہا
بد دعا سورج کو اک ذرے کی ایسی لگ گئی
آسماں پر مدّتوں پھر ابر سا چھایا رہا
اُس کی ہر کوشش یہی تھی میرا سورج ڈوب جائے
پر مرا انجام جیسا بھی رہا اچھا رہا
آج کوئی بھی اُسے پہچاننے والا نہیں
اتنے چہرے بدلے تھے اُس نے کہ بے چہرہ رہا
*
وقت کا احترام کر نے لگے
شیر سرکس میں کام کر نے لگے
جب سے شاہی چھنی ہے جنگل کی
نیند گیدڑ حرام کرنے لگے
ّ
آج کے بھیڑیوں کا کہنا ہے
میمنے قتل عام کر نے لگے
جب سے ملنے لگے خواص سے ہم
احترامِ عوام کر نے لگے
اب بڑھاپا قریب آ پہنچا
ہم بھی کچھ نیک کام کر نے لگے
*
میں جب ہوا کے ارادوں کو جان لیتا ہوں
لڑے بغیر ہی پھر ہار مان لیتا ہوں
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیرو کمان لیتا ہوں
فضائے شہر سے آتی ہوئی ہواؤں کو
میں سانس لینے سے پہلے ہی چھان لیتا ہوں
بڑے سکون سے اکثر زمیں کے بستر پر
اب آسمان کی چادر بھی تان لیتا ہوں
یہ اور بات کہ پورا کوئی نہیں ہوتا
ہمیشہ عزم کوئی دل میں ٹھان لیتا ہوں
یہ واقعہ ہے کہ ناکام رہتا ہوں اکثر
میں جب بھی اپنا کوئی امتحان لیتا ہوں
*
سارے درد نظر آئیں گے گھر سے باہر
جس دن میں نکلوں گا پس منظر سے باہر
لاکھ سمیٹے رکھوں پر جانے انجانے
ہوجاتے ہیں پانو مرے چادر سے باہر
کب سے ہیں انکھیاں تیرے درشن کی پیاسی
درش دکھا دے آ بھی جا پتھر سے باہر
پہلے جس کی آنکھ نشانے پر تھی میرے
اب وہ چڑیا بھی ہے حدِ نظر سے باہر
آج بھی میں کھل کر سچ بول نہیں سکتا ہوں
اب بھی نہیں ہوں اس کے حصارِ شر سے باہر
جس کو میں نے صدی کا روپ دیا تھا آزرؔ
اب وہ لمحہ بھی ہے میرے اثر سے باہر
*
یہ اور بات کہ آسودگی بہت کم ہے
ذہین شہر میں اب مفلسی بہت کم ہے
عجیب دور ہے یہ شہرِ میرؔ و غالبؔ کا
سخن سرا ہیں بہت، شاعری بہت کم ہے
خصوصیات کچھ اُس میں فرشتوں جیسی ہیں
یہ اور بات ہے، وہ آدمی بہت کم ہے
مزاج رکھتے ہیں سب لوگ اب سمندر کا
نئے شعور میں دریا دلی بہت کم ہے
چلو مرے ہوئے لوگو ں کو ہی صدائیں دیں
کہ زندہ لوگوں میں اب زندگی بہت کم ہے
عجیب شہرہے یہ چھانو بھی ہے کم لیکن
ضرورتوں کی یہاں دھوپ بھی بہت کم ہے
*
خزاں رسیدہ قیادت میں کیوں نہیں آتے
اب اچھے لوگ سیاست میں کیوں نہیں آتے
جدا جدا رگِ، ظالم پہ وار کرتے ہیں
ستم زدہ کبھی وحدت میں کیوں نہیں آتے
ہجومِ یاس کے آتے ہی دیتے ہیں دستک
یہ دل کے درد بھی فرصت میں کیوں نہیں آتے
تجھے جو صفحۂ ہستی پہ جاوداں کردیں
وہ لفظ میری عبارت میں کیوں نہیں آتے
حکایتوں کے نگر کے عظیم شہزادے
کبھی بھی شہرِ حقیقت میں کیوں نہیں آتے
میں آنسوؤں کی نگاہوں سے چومتا تھا تجھے
اب ایسے لمحے عبادت میں کیوں نہیں آتے
*
خدا کے سامنے جھکتی ہوئی جبین لگے
ہوا چلی تو مناظر بڑے حسین لگے
کہیں مکینوں سے بہترمکاں ملے مجھ کو
کہیں مکانوں سے بہتر مجھے مکین لگے
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی میری آستین لگے
یہ اور بات یہاں بھی نہیں سکون مگر
مجھے یہی مرے خوابوں کی سر زمین لگے
نہ جانے کون سے پل سب دھواں دھواں ہوجائے
خود اپنے بیٹوں سے سہمی ہوئی زمین لگے
ہر ایک شہر ہے شہرِ طلسمِ نو آزرؔ
جسے بھی دیکھو وہی آدمی مشین لگے
*
خود اپنا بارِ غم ڈھونا پڑے گا
مگر ہر لحظہ خوش ہونا پڑے گا
وہ اتنا ہنس چکا ہے زندگی میں
کہ شاید عمر بھر رونا پڑے گا
اگر تم خود کو پانا چاہتے ہو
تو اپنے آپ کو کھونا پڑے گا
وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے
مجھے اک بار پھر سونا پڑے گا
نکھر جائے گی پھر صورت تمہاری
مگر اشکوں سے منہ دھونا پڑے گا
پڑے گا دشمنوں کا ساتھ دینا
خلاف اپنے اسے ہونا پڑے گا
*
اسی امید پر آزرؔ کہ شاید اب بہار آئے
سنہری زندگی دورِ خزاں میں ہی گزار آئے
پیمبر تو نہیں تھے پھر بھی قدرت کے اشارے پر
نہفتہ معجزے ہم بھی خلاؤں سے اتار آئے
ہمارا حال ماضی کا پتہ دیتا نہیں یکسر
ہماری عظمتِ رفتہ پہ کس کو اعتبار آئے
بڑے ہونے پہ یہ دنیا کبھی جینے نہیں دیتی
سو ہم بھی زندگی جی بھر کے بچپن میں گزار آئے
کہاں فرصت کہ میں اس دل کی ہر خواہش کروں پوری
یہ پاگل چاہتا ہے پھر سے دورِ انتظار آئے
*
کچھ اِس طرح سے عبادت خفا ہوئی ہم سے
نمازِ عشق بہت کم ادا ہوئی ہم سے
غریب آنکھوں میں آنسو بھی اب نہیں آتے
الٰہی رحم کہ پھر کیا خطا ہوئی ہم سے
ہم ابتدا ہی کہاں نیکیوں کی تھے یارب
تو پھر گناہوں کی کیوں انتہا ہوئی ہم سے
یہ بدنصیبی ہماری ہے، کم ہوا ایسا
کہ دشمنوں کے بھی حق میں دعا ہوئی ہم سے
سلوک موت کا ہم سے نہ جانے کیسا ہو
یہ زندگی تو بہت بے مزہ ہوئی ہم سے
کہاں چھپائیں گے محشر میں خود کو ہم آزرؔ
کہاں اطاعتِ خیرالوریٰ ہوئی ہم سے
*
عجیب انداز کی یہ زندگی محسوس ہوتی ہے
بھلی معلوم ہوتی ہے بُری محسوس ہوتی ہے
تنفّس اک مسلسل خود کُشی کا نام ہے شاید
میں جتنا جیتا ہوں اتنی نفی محسوس ہوتی ہے
وہ ہو موجود تو اس پر توجہ بھی نہیں جاتی
نہ ہو موجود تو کتنی کمی محسوس ہوتی ہے
فضاؤں تک ہی گر محدود رہتی تو بھی چل جاتا
خلاؤں میں بھی اب آلودگی محسوس ہوتی ہے
عجیب انساں ہے اب بھی زندگی کے گیت گاتا ہے
مجھے ہر سانس اس کی آخری محسوس ہوتی ہے
کبھی آیا تھا میری زندگی میں زلزلہ آزرؔ
مجھے اب تک زمیں ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
*
بے رحم سچ نے اتنا ڈرایا تمام عمر
دیکھا نہ ہم نے خواب کا چہرہ تمام عمر
نبیوں کا سلسلہ بھی اسے روکنا پڑا
لپٹی رہی گناہ سے دنیا تمام عمر
بچپن میں اپنے ساتھ رہا، میں جہاں رہا
پھر میں بھی خود کو ڈھونڈ نہ پایا تمام عمر
مجبوریوں کا نام رکھا زندگی نے صبر
پھر اُس کے بعد پھل کی تمنا تمام عمر
اک گھر کا خواب آنکھوں نے دیکھا زمین پر
بنتا رہا خیالوں میں نقشہ تمام عمر
ورنہ تو کتنے لوگ ملاقاتیوں میں تھے
مجھ سے وہی ملا جو نہ بچھڑا تمام عمر
Thursday, June 28, 2012
گلوبل گاؤں کا نمائندہ شاعر۔ ڈاکٹر فریاد آزر
سعید رحمانی اڑیسہ (کٹک)
اس میں شک نہیں کہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کئے ہیں سائینس ارو ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے ۔ اطمینان‘ قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصۂ پارینہ نظر آتی ہے ۔ یہ سب اس لئے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی ‘تہذیب کی شکست وریخت‘ خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میں قید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں خود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔
اس بحران میں سانس لینے والی نسل زندگی کے چوراہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میں منہمک نظر آتی ہے ۔ اس نسل کے فنکاروں میں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میں سے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں عہدِحاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں انہی فنکاروں میں ڈاکٹر فریاد آزرایک اہم نام ہے ۔ وہ خالصتاََ غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیں سماجی ‘ معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں ۔ ان غزلوں سے ان کا فکری اخلاص مترشح ہے جن میں سماجی شعوراور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میں ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میں ان کی ولادت ۱۰جولائی۱۹۵۶ء کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آگئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے‘ جواہر لا ل نہر ویونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس کمیونیکیشن میڈیا‘اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سردست دہلی میں قیام ہے جہاں وہ درس و تدریس کے معززپیشہ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا اچھاتجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیاکی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ فی الحال ماہنامہ ’’عاکف کی محفل ‘‘کے مدیر اعزازی ہیں اور ایوانِ غزل ڈاٹ کوم کے چیف ایڈٹرکی حیثیت سے اپنا ایک ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیں۔
یوں تو بچپن سے شاعری کا شوق رہاہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۷۸ء میں کیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیں لیں اورآخرمیں پروفیسرعنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیں کہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یو ں تو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون، آہنگ، سب رنگ، ادب لطیف،افکار( پاکستان )جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنا ئی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے علاوہ دو(غزلیہ )شعری مجمو عے کے خزا ں میرا موسم اور قسطو ں میں گزرتی زندگی منظر عام پر آکر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اور ابھی ابھی ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں منظرِ عام پر آیا ہے جو دراصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے ۔ اس انتخابی مجموعہ کوپیش کرنے کا عمل اس نقطۂ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظرآئینگی۔ جو لوگ تحقیقی امور جڑے ہیں وہ اگر آزرؔ صاحب پر کچھ لکھنا چاہیں تو اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹروزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔’’ شاعروہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میں روزن بناکر خود کو لامتناہیت کے لمس سے آشنا کرے‘‘ ۔ ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میں نظر بندآتا ہے ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہکر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے ریگستا نوں میں کھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے ۔ دونوں مجموعوں کے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میں گزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ کے صحرا میں مدتوںآبلہ پائی کے کرب سے دوچار رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ مثلاََ
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی نکالے گا جان قسطوں میں
*
(۲)
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
*
تمام قرض ادا کرکے ساہوکاروں کا
بچاہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
*
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرایہ دار ہوکر رہ گئے
*
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
*
سب میں کرایہ داروں کے پائے گئے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میں جو کڑے لمحے آئے ہیں ان میں بے گھری کا کرب سب سے نمایاں ہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میں مستقل قیام کے دوران ان کی ذاتی زندگی میں اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس کے اپنے جو مشاھدات وتجربات ہوتے ہیں انہیں اس طرح شعری لباس عطاکرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاں ان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ، آج کی صارفیت اور عام گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریں اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں۔ انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ایسے میںآزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشترکا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جنمیں عہدِحاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحۂ فکریہ عطا کرتا ہے۔
گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
*
اب اس کی روح میں شیطان بس گیا آزرؔ
وہ جسم گاؤں سے انسان لیکے آیا تھا
*
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
*
آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں استواری نہیں رہی۔ اگر دنیا سکڑتی جارہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے ۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میں بند کردیا ہے ۔ تنہا ئی اس کا مقدر بن چکی ہے ۔ چنانچہ شناسالوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان
(۳)
رہتے ہوئے بھی انسان گونگا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میں قدم رکھتے ہی لوگ پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔۔
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے پہچانتا کوئی نہیں
*
پہلے تو اس نے شہر کو بہرا سمجھ لیا
پھر یوں ہوا کہ خود کو ہی گونگا سمجھ لیا
*
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کہ یہ کرشمے بھی دیکھیں کہ کمپیوٹر نے اب بچوں کی کتابوں کے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے درآنے والی بنفشی شعاعوں کا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میں صدیوں کا فاصلہ طہ کرنا کوئی محیرالعقول بات نہیں رہی۔
ننھا کمپیوٹر ‘ قلم ‘کاپی‘ کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جا ئیں گے بستے جدید
*
ورنہ ہم سانس لینے کو ترس جائیں گے
سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے
*
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضرمیں اسلا م مخالف طا قتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہرذی فہم کیلئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخا لف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضیہ کو بحسنِ خوبی نبھایا ہے ۔ اس ذیل میں انہوں نے انگنت شعرکہے ہیں۔ کہیں تلمیح سے کام لیا ہے تو کہیں ایماےئت سے اور کہیں کہیں برملا اظہاربھی ہے ۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی اولادہے
*
کربلاہو کہ‘ فلسطین ‘ کہ ہو بوسینیا
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
(۴)
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
*
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
*
آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسائی فکر کی عام روش سے ہٹ کرانہوں نے جو اشعار کہے ہیں ان میں مواد اور ہیت کے درمیان فاصلہ کو انہوں نے جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور دورانہ کار استعارات سے عمداََ گریزسے ابلاغ وترسیل کامسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذاب توجہ کا باعث بنتی ہے۔ان کے ہاں کچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جنہیں ان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاََ ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
*
بیشتر اشعار میں انکی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاََ لفظوں کو انہوں نے جو کثیرالجہتی عطاکی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروں میں دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھیں۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی
*
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر
و ہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
*
سب کی آنکھیں رکھی تھیں گروی میرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت ،سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ انکی شعری جہات کے وسیع ترامکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گاؤ ں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔ ر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت لکیر وں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
****
سعید رحمانی اڑیسہ (کٹک)
اس میں شک نہیں کہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کئے ہیں سائینس ارو ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے ۔ اطمینان‘ قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصۂ پارینہ نظر آتی ہے ۔ یہ سب اس لئے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی ‘تہذیب کی شکست وریخت‘ خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میں قید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں خود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔
اس بحران میں سانس لینے والی نسل زندگی کے چوراہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میں منہمک نظر آتی ہے ۔ اس نسل کے فنکاروں میں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میں سے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں عہدِحاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں انہی فنکاروں میں ڈاکٹر فریاد آزرایک اہم نام ہے ۔ وہ خالصتاََ غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیں سماجی ‘ معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں ۔ ان غزلوں سے ان کا فکری اخلاص مترشح ہے جن میں سماجی شعوراور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میں ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میں ان کی ولادت ۱۰جولائی۱۹۵۶ء کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آگئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے‘ جواہر لا ل نہر ویونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس کمیونیکیشن میڈیا‘اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سردست دہلی میں قیام ہے جہاں وہ درس و تدریس کے معززپیشہ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا اچھاتجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیاکی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ فی الحال ماہنامہ ’’عاکف کی محفل ‘‘کے مدیر اعزازی ہیں اور ایوانِ غزل ڈاٹ کوم کے چیف ایڈٹرکی حیثیت سے اپنا ایک ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیں۔
یوں تو بچپن سے شاعری کا شوق رہاہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۷۸ء میں کیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیں لیں اورآخرمیں پروفیسرعنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیں کہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یو ں تو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون، آہنگ، سب رنگ، ادب لطیف،افکار( پاکستان )جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنا ئی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے علاوہ دو(غزلیہ )شعری مجمو عے کے خزا ں میرا موسم اور قسطو ں میں گزرتی زندگی منظر عام پر آکر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اور ابھی ابھی ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں منظرِ عام پر آیا ہے جو دراصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے ۔ اس انتخابی مجموعہ کوپیش کرنے کا عمل اس نقطۂ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظرآئینگی۔ جو لوگ تحقیقی امور جڑے ہیں وہ اگر آزرؔ صاحب پر کچھ لکھنا چاہیں تو اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹروزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔’’ شاعروہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میں روزن بناکر خود کو لامتناہیت کے لمس سے آشنا کرے‘‘ ۔ ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میں نظر بندآتا ہے ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہکر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے ریگستا نوں میں کھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے ۔ دونوں مجموعوں کے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میں گزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ کے صحرا میں مدتوںآبلہ پائی کے کرب سے دوچار رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ مثلاََ
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی نکالے گا جان قسطوں میں
*
(۲)
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
*
تمام قرض ادا کرکے ساہوکاروں کا
بچاہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
*
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرایہ دار ہوکر رہ گئے
*
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
*
سب میں کرایہ داروں کے پائے گئے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میں جو کڑے لمحے آئے ہیں ان میں بے گھری کا کرب سب سے نمایاں ہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میں مستقل قیام کے دوران ان کی ذاتی زندگی میں اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس کے اپنے جو مشاھدات وتجربات ہوتے ہیں انہیں اس طرح شعری لباس عطاکرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاں ان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ، آج کی صارفیت اور عام گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریں اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں۔ انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ایسے میںآزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشترکا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جنمیں عہدِحاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحۂ فکریہ عطا کرتا ہے۔
گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
*
اب اس کی روح میں شیطان بس گیا آزرؔ
وہ جسم گاؤں سے انسان لیکے آیا تھا
*
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
*
آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں استواری نہیں رہی۔ اگر دنیا سکڑتی جارہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے ۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میں بند کردیا ہے ۔ تنہا ئی اس کا مقدر بن چکی ہے ۔ چنانچہ شناسالوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان
(۳)
رہتے ہوئے بھی انسان گونگا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میں قدم رکھتے ہی لوگ پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔۔
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے پہچانتا کوئی نہیں
*
پہلے تو اس نے شہر کو بہرا سمجھ لیا
پھر یوں ہوا کہ خود کو ہی گونگا سمجھ لیا
*
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کہ یہ کرشمے بھی دیکھیں کہ کمپیوٹر نے اب بچوں کی کتابوں کے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے درآنے والی بنفشی شعاعوں کا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میں صدیوں کا فاصلہ طہ کرنا کوئی محیرالعقول بات نہیں رہی۔
ننھا کمپیوٹر ‘ قلم ‘کاپی‘ کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جا ئیں گے بستے جدید
*
ورنہ ہم سانس لینے کو ترس جائیں گے
سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے
*
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضرمیں اسلا م مخالف طا قتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہرذی فہم کیلئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخا لف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضیہ کو بحسنِ خوبی نبھایا ہے ۔ اس ذیل میں انہوں نے انگنت شعرکہے ہیں۔ کہیں تلمیح سے کام لیا ہے تو کہیں ایماےئت سے اور کہیں کہیں برملا اظہاربھی ہے ۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی اولادہے
*
کربلاہو کہ‘ فلسطین ‘ کہ ہو بوسینیا
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
(۴)
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
*
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
*
آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسائی فکر کی عام روش سے ہٹ کرانہوں نے جو اشعار کہے ہیں ان میں مواد اور ہیت کے درمیان فاصلہ کو انہوں نے جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور دورانہ کار استعارات سے عمداََ گریزسے ابلاغ وترسیل کامسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذاب توجہ کا باعث بنتی ہے۔ان کے ہاں کچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جنہیں ان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاََ ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
*
بیشتر اشعار میں انکی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاََ لفظوں کو انہوں نے جو کثیرالجہتی عطاکی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروں میں دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھیں۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی
*
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
*
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر
و ہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
*
سب کی آنکھیں رکھی تھیں گروی میرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت ،سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ انکی شعری جہات کے وسیع ترامکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گاؤ ں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔ ر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت لکیر وں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
****
نئی غزل کے معتبر فنکار: ڈاکٹر فریاد آزرؔ
رفیق شاہینؔ
تعلیم منزل ، میرس روڈ،علی گڑھ
عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ڈاکٹر فریاد آزرؔ ہندوستان کی راجدھانی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ Ph.D.کے اعزاز سے سرفراز جدید لب و لہجے اور نئی آواز کے معتبرو و منفرد شاعر ہیں۔ ان کے تازہ ترین غزلوں کے مجموعے ’’قسطوں میں گزرتی زندگی‘‘ سے بھی پہلے ان کے دو شعری مجموعے ’’خزاں میرا موسم‘‘(۱۹۹۴ء) اور ’’بچوں کا مشاعرہ‘‘ (۱۹۹۸ء) منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر ارباب دانش اور شائقین ادب سے بھر پور خراج تحسین وصول کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی لگن تندہی اور مستعدی کے ساتھ غزل میں مشق و ممارست کرتے چلے آرہے ہیں اور اب ایک قادر الکلام ااور پختہ گو شاعر کہلانے کا بجاا طور پر استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات ملکی اور غیر ملکی صف اول کے ممتاز و معیاری رسائل و جرائدمیں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ آفاق ادب میں آپ کا نام نامی خورشید عالم تاب کی طرح تاباں ہے۔ ادب میں آپ کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے اور آپ کا نام صف اول کے ممتاز و معتبر شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ہر طرح کی ادبی تحریکوں ‘ منصوبوں ‘ رجحانوں اور مخصوص ادبی نوعیت کی نظریاتی جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہے اور کسی بھی ادبی گروہ سے انہیں دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔
سادگی و سلااست‘ ندرت و انفرادیت‘ عصری حسیت‘ سماجی معنویت‘ وحدت و صداقت ‘ ذاتیت و آفاقیت‘ خارجیت و داخلیت ‘ فصاحت و بلاغت ‘ ابخذابیت و لطافت ‘نزاکت وجمالیت اور حلاقت و شعریت ان کی نئی غزل اور شاعری کا خلاصہ ہیں۔ ان کا فکری شعور ان کی اپنی آگہی کے ہنڈولے میں پروان چڑھا ہے۔ اپنے اطراف واکناف اور معاشرے و ماحول پروہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور خارجی محرکات ہی ان کی داخلیت کی گہری جھیل میں شناوری کے عمل سے گزر کر شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر طے کرتی ہے۔ انہوں نے روایت کے طلسماات اور رومانیت کی خیالی جنتوں اور حسن و عشق کے فرضی جہانوں اور پرستانوں میں پناہ لینے کے بجائے خود کو عصرِ حاضر کے سنگین مسئلوں اور تلخ سچائیوں کے حوالے کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کا چہرہ ہمیں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
*
پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید
پھر اس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اگنے لگے
*
ضد کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لئے بھی
یہ بچہ میرا مجھ سے بھی بوڑھا نظر آیا
*
حمام میں تو خیر سبھی ہوتے ہیں ننگے
حمام سے باہر بھی وہ ننگا نظر آیا
*
دوسرے سیاروں پہ چلنے کی تیاری کرو
یہ زمیں کرنے کو ہے ساری سبیلیں مسترد
*
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
*
فریاد آزرؔ کی شاعری میں ان کی اپنی آگہی نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ آفتابِ آگہی ان کی دنیائے شعور و ادراک اور جہان فکرو خیال کے ذرے ذرے کو اپنے نور کی زرق برق زریں شعاعوں سے تاباں و درخشاں کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سحاب خامہ سے اشعار کے دمکتے موتی برسنے لگتے ہیں
مجھے بھی کرنا پڑا تھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں گھر جہنم میں
*
سانس بھی لوں اور شہر ہوا سے بچنا چاہوں
دنیا میں رہ کر دنیا سے بچنا چاہوں
*
طرز عمل ایسا بھی نہیں جوزندہ رکھے
پھر بھی میں انجامِ فنا سے بچنا چاہوں
*
کن کن صعوبتوں سے گزرناپڑ ا مجھے
اس زندگی میں بار ہا مرنا پڑا مجھے
جذبے میں آکے میں نے بھی سچ بول تو دیا
پھر اپنے ہی بیاں سے مکرنا پڑا مجھے
*
گھٹ گھٹ کے مر گیا مرے اند رکا آدمی
پھر مجھ میں آبسا کوئی پتھر کا آدمی
*
ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نئی نئی شگفتہ زمینیں تلاش کرکے ان میں اپنے افکار و خیال اپنے نقشے کے مطابق سجا ااور سنوار کر ڈھالتے ہیں۔
’’اندر کا آدمی‘‘‘ ’’بسر جہنم میں‘‘ اور’’ سر اتار دیتا ہے‘‘ جیسی زمینوں والی ان کی غزلیں اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بخوبی واقف ہیں کہ آج سیاست ہو یا معاشرت ‘ مذہب ہو یا ادب آج زندگی سے وابستہ ہر شعبہ سخت بے راہ روی اور افراا تفری کا شکار ہے۔ ذات پات ،عدم انصاف، مذہبی و ملی عصبیت و منافرت ،اہل سیاست کی ریشہ دوانیاں، مقتدر ہستیوں کی متعصبانہ روش، رہنماؤں کی خود غرضی و خود پرستی اور بے ضمیری ‘ قانون کی خلاف ورزی، حقوق کی پائمالی ‘ قاتل صفت جماعتوں کی وحشت و بربریت ‘ رشوت خوری‘ رشتوں سے لاتعلقی‘ تہذیب و تمدن سے بیزاری ‘ اعلیٰ قدروں کی پسپائی اور جائزہ و ناجائز طور پر دولت کمانے کی ہوس نے اس ارضی جنت کو ایک شعلہ فشاں جہنم میں تبدیل کردیا ہے جہاں نیک دل سیدھے سچے ایماندار اور شریف انسانوں کے لئے جینا حرام ہوکر رہ گیا ہے۔ خود پرستانہ اور خود غرضانہ نئے نئے معیارات نے معاشرے کو سنگین مسائل کا ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقتور اور دولتمند انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں اورغریب و شریف انسان اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سہمے اور سکڑے بیٹھے تبدیلی وقت کے مشاہدے میں مصروف ہیں۔ زندگی کو کہیں بھی جائے اماں نصیب نہیں اور موت سے بھی بدتر زندگی بڑی بے یقینی کے عالم میں بسر ہورہی ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ایسے ہی ناموافق حالات اور معاشرے کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی اپنی شاعری میں بھر پور عکاسی کی ہے اور خوب کی ہے
کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی
اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی
*
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھوں میں تیرو کمان لیتا ہوں
*
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
*
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحمِ ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
*
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
*
مدتیں گزریں مجھے احباب کو دیکھے ہوئے
مسئلوں نے مجھ کو ایسی قید تنہائی کی دی
*
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا ‘ خوں ریزی‘ کوفہ ،تشنگی‘ صحرا ‘ فرات
*
پھربیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر
*
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہ ے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی ااولاد ہے
*
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
*
کم زور شہ زورسے ‘ معصوم گنہگار سے اور مظلوم ظالم سے ہمیشہ ہی تباہ و تاراج ہوتا رہا ہے ۔ جھوٹ اقتدار کی مسند پر متمکن ہو کر وقت کا سب سے بڑا سچ بن جاتا ہے۔طاقتور اپنے کسی بھی عمل پر جواب دہی سے مستثنیٰ ہے جبکہ کمزور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں۔ اس ظلم اور ناانصافی پر نہ تو زمین کی چھاتی شق ہوتی ہے اور نہ ہی آسمان کا کلیجہ پھٹتا ہے البتہ ایک کونے میں بیٹھی ہو ئی لاچار انسانیت خرور خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے ۔
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہیں حقیقت بھی
*
مرگئے بوئے ہوئے زہر سے اتنے معصوم
اب اترتے نہیں کھیتوں میں پرندے معصوم
*
آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت
بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم
*
اب اترتے ہیں کسی اور ہی سیارے پر
اتنے خائف ہوئے دھرتی سے پرندے معصوم
*
جو سیاست نے اٹھا دی ہے دلوں کی درمیاں
جانے کب ہوں گی وہ زہریلی فصیلیں مسترد
*
وہ امن و آ شتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
*
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اس کو مجھے بار بار کرنا پڑا
*
ذلیل خود کو اسے باوقار کرنا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کرنا پڑا
مذکورہ مطلع بے پناہ مطلع ہے جو ہزاروں موقعوں پر حوالہ بن کر موقع محل کی نزاکت کا ترجمان ثابت ہوگا۔ ایسے شعر جو شاعر کے تجربے میں قاری کو شامل کرکے اور اس کی تائید حاصل کرکے اس سے مہر تصدیق ثبت کرالیں مشکل سے ہی عالم وجود میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی زبان سادہ لہجہ تیکھا اور اسلوب نگارش ندرت و انفرادیت اور گہرے تاثر کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں احتجاج طنز اور نشتر یت کے حربے بھی
آزمائے گئے ہیں لیکن دبی آواز اور لہجے کی نرمی و شائستگی کے سبب یہ طبیعت پر بارِ گراں ثابت نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر صاحب خیال کے اظہار میں تشبیہات و استعارات ‘ رموز و علامات اور اشاریت و ایمائیت سے مدد لیتے ہیں مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتے ہیں کہ
ان کی شاعری میں تجریدیت ‘ تکثیریت، مجہولیت ‘ ابہامیت اور مہملیت نہ در آئے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتی ۔ ان کا شعر سلاست و فصاحت اور بلاغت سے آراستہ ہونے کے سبب زبان پر آتے ہی اپنی شرح آپ بن جاتا ہے اور ان کی مقصد سے بھرپور بامعنی شاعری کم پڑھے لکھے قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آجاتی ہے۔
نئے لب و لہجے میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں لیکن فریاد آزرؔ کی بات ہی نرالی ہے۔۔ ان کی آواز کے سر میں جوانوکھی دلکشی اور نغمگی کا پرتو ہے وہ کسی بھی شاعری میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات سے اپنے شعری گلدستے کو سجایا ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سبھی شعری جہات کا محاسبہ اور احاطہ ممکنات کی حد سے باہر ہے لہٰذا راقم الحروف ان کے اس مقطع کے ساتھ ہی درِ مضمون بند کرتا ہے
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
***
رفیق شاہینؔ
تعلیم منزل ، میرس روڈ،علی گڑھ
عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ڈاکٹر فریاد آزرؔ ہندوستان کی راجدھانی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ Ph.D.کے اعزاز سے سرفراز جدید لب و لہجے اور نئی آواز کے معتبرو و منفرد شاعر ہیں۔ ان کے تازہ ترین غزلوں کے مجموعے ’’قسطوں میں گزرتی زندگی‘‘ سے بھی پہلے ان کے دو شعری مجموعے ’’خزاں میرا موسم‘‘(۱۹۹۴ء) اور ’’بچوں کا مشاعرہ‘‘ (۱۹۹۸ء) منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر ارباب دانش اور شائقین ادب سے بھر پور خراج تحسین وصول کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی لگن تندہی اور مستعدی کے ساتھ غزل میں مشق و ممارست کرتے چلے آرہے ہیں اور اب ایک قادر الکلام ااور پختہ گو شاعر کہلانے کا بجاا طور پر استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات ملکی اور غیر ملکی صف اول کے ممتاز و معیاری رسائل و جرائدمیں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ آفاق ادب میں آپ کا نام نامی خورشید عالم تاب کی طرح تاباں ہے۔ ادب میں آپ کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے اور آپ کا نام صف اول کے ممتاز و معتبر شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ہر طرح کی ادبی تحریکوں ‘ منصوبوں ‘ رجحانوں اور مخصوص ادبی نوعیت کی نظریاتی جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہے اور کسی بھی ادبی گروہ سے انہیں دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔
سادگی و سلااست‘ ندرت و انفرادیت‘ عصری حسیت‘ سماجی معنویت‘ وحدت و صداقت ‘ ذاتیت و آفاقیت‘ خارجیت و داخلیت ‘ فصاحت و بلاغت ‘ ابخذابیت و لطافت ‘نزاکت وجمالیت اور حلاقت و شعریت ان کی نئی غزل اور شاعری کا خلاصہ ہیں۔ ان کا فکری شعور ان کی اپنی آگہی کے ہنڈولے میں پروان چڑھا ہے۔ اپنے اطراف واکناف اور معاشرے و ماحول پروہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور خارجی محرکات ہی ان کی داخلیت کی گہری جھیل میں شناوری کے عمل سے گزر کر شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر طے کرتی ہے۔ انہوں نے روایت کے طلسماات اور رومانیت کی خیالی جنتوں اور حسن و عشق کے فرضی جہانوں اور پرستانوں میں پناہ لینے کے بجائے خود کو عصرِ حاضر کے سنگین مسئلوں اور تلخ سچائیوں کے حوالے کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کا چہرہ ہمیں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
*
پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید
پھر اس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اگنے لگے
*
ضد کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لئے بھی
یہ بچہ میرا مجھ سے بھی بوڑھا نظر آیا
*
حمام میں تو خیر سبھی ہوتے ہیں ننگے
حمام سے باہر بھی وہ ننگا نظر آیا
*
دوسرے سیاروں پہ چلنے کی تیاری کرو
یہ زمیں کرنے کو ہے ساری سبیلیں مسترد
*
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
*
فریاد آزرؔ کی شاعری میں ان کی اپنی آگہی نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ آفتابِ آگہی ان کی دنیائے شعور و ادراک اور جہان فکرو خیال کے ذرے ذرے کو اپنے نور کی زرق برق زریں شعاعوں سے تاباں و درخشاں کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سحاب خامہ سے اشعار کے دمکتے موتی برسنے لگتے ہیں
مجھے بھی کرنا پڑا تھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں گھر جہنم میں
*
سانس بھی لوں اور شہر ہوا سے بچنا چاہوں
دنیا میں رہ کر دنیا سے بچنا چاہوں
*
طرز عمل ایسا بھی نہیں جوزندہ رکھے
پھر بھی میں انجامِ فنا سے بچنا چاہوں
*
کن کن صعوبتوں سے گزرناپڑ ا مجھے
اس زندگی میں بار ہا مرنا پڑا مجھے
جذبے میں آکے میں نے بھی سچ بول تو دیا
پھر اپنے ہی بیاں سے مکرنا پڑا مجھے
*
گھٹ گھٹ کے مر گیا مرے اند رکا آدمی
پھر مجھ میں آبسا کوئی پتھر کا آدمی
*
ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نئی نئی شگفتہ زمینیں تلاش کرکے ان میں اپنے افکار و خیال اپنے نقشے کے مطابق سجا ااور سنوار کر ڈھالتے ہیں۔
’’اندر کا آدمی‘‘‘ ’’بسر جہنم میں‘‘ اور’’ سر اتار دیتا ہے‘‘ جیسی زمینوں والی ان کی غزلیں اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بخوبی واقف ہیں کہ آج سیاست ہو یا معاشرت ‘ مذہب ہو یا ادب آج زندگی سے وابستہ ہر شعبہ سخت بے راہ روی اور افراا تفری کا شکار ہے۔ ذات پات ،عدم انصاف، مذہبی و ملی عصبیت و منافرت ،اہل سیاست کی ریشہ دوانیاں، مقتدر ہستیوں کی متعصبانہ روش، رہنماؤں کی خود غرضی و خود پرستی اور بے ضمیری ‘ قانون کی خلاف ورزی، حقوق کی پائمالی ‘ قاتل صفت جماعتوں کی وحشت و بربریت ‘ رشوت خوری‘ رشتوں سے لاتعلقی‘ تہذیب و تمدن سے بیزاری ‘ اعلیٰ قدروں کی پسپائی اور جائزہ و ناجائز طور پر دولت کمانے کی ہوس نے اس ارضی جنت کو ایک شعلہ فشاں جہنم میں تبدیل کردیا ہے جہاں نیک دل سیدھے سچے ایماندار اور شریف انسانوں کے لئے جینا حرام ہوکر رہ گیا ہے۔ خود پرستانہ اور خود غرضانہ نئے نئے معیارات نے معاشرے کو سنگین مسائل کا ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقتور اور دولتمند انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں اورغریب و شریف انسان اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سہمے اور سکڑے بیٹھے تبدیلی وقت کے مشاہدے میں مصروف ہیں۔ زندگی کو کہیں بھی جائے اماں نصیب نہیں اور موت سے بھی بدتر زندگی بڑی بے یقینی کے عالم میں بسر ہورہی ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ایسے ہی ناموافق حالات اور معاشرے کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی اپنی شاعری میں بھر پور عکاسی کی ہے اور خوب کی ہے
کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی
اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی
*
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھوں میں تیرو کمان لیتا ہوں
*
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
*
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحمِ ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
*
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
*
مدتیں گزریں مجھے احباب کو دیکھے ہوئے
مسئلوں نے مجھ کو ایسی قید تنہائی کی دی
*
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا ‘ خوں ریزی‘ کوفہ ،تشنگی‘ صحرا ‘ فرات
*
پھربیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر
*
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہ ے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی ااولاد ہے
*
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
*
کم زور شہ زورسے ‘ معصوم گنہگار سے اور مظلوم ظالم سے ہمیشہ ہی تباہ و تاراج ہوتا رہا ہے ۔ جھوٹ اقتدار کی مسند پر متمکن ہو کر وقت کا سب سے بڑا سچ بن جاتا ہے۔طاقتور اپنے کسی بھی عمل پر جواب دہی سے مستثنیٰ ہے جبکہ کمزور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں۔ اس ظلم اور ناانصافی پر نہ تو زمین کی چھاتی شق ہوتی ہے اور نہ ہی آسمان کا کلیجہ پھٹتا ہے البتہ ایک کونے میں بیٹھی ہو ئی لاچار انسانیت خرور خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے ۔
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہیں حقیقت بھی
*
مرگئے بوئے ہوئے زہر سے اتنے معصوم
اب اترتے نہیں کھیتوں میں پرندے معصوم
*
آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت
بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم
*
اب اترتے ہیں کسی اور ہی سیارے پر
اتنے خائف ہوئے دھرتی سے پرندے معصوم
*
جو سیاست نے اٹھا دی ہے دلوں کی درمیاں
جانے کب ہوں گی وہ زہریلی فصیلیں مسترد
*
وہ امن و آ شتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
*
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اس کو مجھے بار بار کرنا پڑا
*
ذلیل خود کو اسے باوقار کرنا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کرنا پڑا
مذکورہ مطلع بے پناہ مطلع ہے جو ہزاروں موقعوں پر حوالہ بن کر موقع محل کی نزاکت کا ترجمان ثابت ہوگا۔ ایسے شعر جو شاعر کے تجربے میں قاری کو شامل کرکے اور اس کی تائید حاصل کرکے اس سے مہر تصدیق ثبت کرالیں مشکل سے ہی عالم وجود میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی زبان سادہ لہجہ تیکھا اور اسلوب نگارش ندرت و انفرادیت اور گہرے تاثر کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں احتجاج طنز اور نشتر یت کے حربے بھی
آزمائے گئے ہیں لیکن دبی آواز اور لہجے کی نرمی و شائستگی کے سبب یہ طبیعت پر بارِ گراں ثابت نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر صاحب خیال کے اظہار میں تشبیہات و استعارات ‘ رموز و علامات اور اشاریت و ایمائیت سے مدد لیتے ہیں مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتے ہیں کہ
ان کی شاعری میں تجریدیت ‘ تکثیریت، مجہولیت ‘ ابہامیت اور مہملیت نہ در آئے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتی ۔ ان کا شعر سلاست و فصاحت اور بلاغت سے آراستہ ہونے کے سبب زبان پر آتے ہی اپنی شرح آپ بن جاتا ہے اور ان کی مقصد سے بھرپور بامعنی شاعری کم پڑھے لکھے قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آجاتی ہے۔
نئے لب و لہجے میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں لیکن فریاد آزرؔ کی بات ہی نرالی ہے۔۔ ان کی آواز کے سر میں جوانوکھی دلکشی اور نغمگی کا پرتو ہے وہ کسی بھی شاعری میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات سے اپنے شعری گلدستے کو سجایا ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سبھی شعری جہات کا محاسبہ اور احاطہ ممکنات کی حد سے باہر ہے لہٰذا راقم الحروف ان کے اس مقطع کے ساتھ ہی درِ مضمون بند کرتا ہے
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
***
سبز ساعتوں کا شاعر: فریاد آزرؔ
ڈاکٹر ممتاز الحق
ای:۲۲۷،شاہین باغ
جامعہ نگر،نئی دہلی۲۵
سنہ ۸۰ کے آس پاس شعراء کی جو نئی نسل سامنے آئی وہ کئی لحاظ سے اپنے پیش رو شعراء سے مختلف تھی۔تازہ دم، نئی فکر اور نئے اسالیب کی موجد، تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند ! ان کا کمٹمنٹ نہ ترقی پسندی سے تھا نہ جدیدیت سے۔ ایک آزاد تخلیقی فضا کا احساس دلانے والے ان شعراء میں ایک اہم نام تھافریاد آزر ! فریاد آزرؔ ۱۹۵۶ میں بنارس میں پیدا ہوئے، انٹر میڈیئٹ کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی کی شاگردی میں ۷۷۔۱۹۷۶ میں غزلیہ شاعری کا آغاز کیا۔
۱۹۹۴ میں فریاد آزرؔ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم منظرِ عام پر آیا اور پھر ایک طویل وقفہ کے بعدسنہ ۲۰۰۵ میں دوسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا۔اس طویل وقفہ کی وجہ ایسے مسلسل حادثات تھے جنھوں نے آزرؔ کے حوصلے پست کر دئے اور ان کی ذاتی زندگی بھی ایک مسلسل بے سکونی ، ایک کرب ناک اضطراب اور ایک خاموش قیامتِ صغرا بن کر رہ گئی۔
خزاں میرا موسم اور قسطوں میں گزرتی زندگی دونوں مجموعوں کے نام شاعر کے فطری درد و غم ، اضطراب اور محرومی کے غماز ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی حساس فن کار ان سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی کا عرفان انھیں جذبات و احساسات کا مرحونِ منت ہے۔آزرؔ کے یہاں ذاتی غموں اور ناکامیوں نے اس رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔۔۔۔
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ اپنا
کہ اپنے بعد بھلا اور کون تھا اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ ثقف ِ آسماں جلتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاس ،محرومی، تذبذب، کرب،خوش فہمی،انا
اتنے ساماں تھے،مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا
درد صدیوں سے مرا نام و نصب جانتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا ، فلسطین اور بوسنیا کی علامتیں بتاتی ہیں کہ شاعر کا غم محدود نوعیت کا نہیں ہے،یہ اسے ورثہ میں ملا ہے اور اس غم میں پوری ایک نسل اس کی شریک ہے۔ اسے صرف اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ حق کا طرفدار ہے اور اسکی وابستگی دینِ محمدی سے ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ آزرؔ کی پسندیدہ علامتیں قرآن،رسول،اذان، نماز، سورہء رحمان، سورہء یاسین وغیرہ ہیں۔سبز رنگ ان کے یہاں خدا شناسی، خدا ترسی، پاکیزگی، اخوت ومحبت اور حق گوئی و بے باکی کا استعارہ ہے۔سبز رنگ کے مختلف شیڈس آزرؔ کے تخلیقی تجربات کی رنگا رنگی کا وافر ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان پرکشش تراکیب پر نظر ڈالیں: سبز صدی ،سبز لمحات، سبز ہوا، سبز لمس،سبز سایے، سبز موسم،سبز رخت، سبز ہاتھ اور سبز گھاس! اور جب یہ ترکیبیں جزوِ شعر بنتی ہیں تو یہی سبز رنگ کئی دوسرے رنگوں کے پیکر تخلیق کرتا ہے اور شعر کی بلاغت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تو جڑ سے کاٹ ہی دی تھی روایتاً
یہ سبز گھاس ہے کہ اگی آ ر ہی ہے پھر
۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی طاقتیں مشرق اور خاص طور پر اسلام کو ہمیشہ زیر کرنے اور اور اسے بدنام کرنے کی فکر میں رہی ہیں،ان کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں مگرمشرقی ممالک کبھی گلوبلائزیشن کے نام پر، کبھی تیل کی سیاست اور کبھی ایٹمی توانائی کے حربوں سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آزر ؔ کی شاعری اس صورتِ حال کے خلاف شدید احتجاج درج کرتی ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے و ہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے وہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزرؔ کی شاعری میں اقلیتی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور بعض مواقع پر انھیں دوئم درجہ کا شہری قرار دیا ہے۔ ہندستان میں بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا اس امتیاز کی بدترین شکل ہے۔۔۔ ۔ ۔۔
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے
میں سر اٹھا ہی نہ پاؤں زمانہ چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔
آزر ؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ ساری دنیا میں ملتِ اسلامیہ خود انتشار کا شکار ہے۔ اس کی ناکامی کا خاص سبب یہی ہے۔ اس رویہ کے خلاف آزرؔ کے یہاں شدید برہمی ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جدا جدا رگِ ظالم پہ وار کرتے ہیں
ستم زدہ کبی وحدت میں کیوں نہیں آتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲)
(۳)
متحد ہو کر نہ سورج کی چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنؤں کے پر کتر جائے گی رات
حالانکہ آزرؔ کی شاعری کا مرکزی خیال قومی اور بین اقوامی مظالم کے خلاف شدید احتجاج ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس عہد کے دیگر مسائل کی طرف ان کی نگاہ نہیں جاتی۔سماجی، سائنسی،سیاسی،معاشی، تہذیبی،مذہبی،ادبی گویا کہ ہر طرح کے مسائل پر وہ بہت باریکی سے نگاہ ڈالتے ہیں۔مندرجہ ذیل قبیل کے بے شمار اشعار آزرؔ کے کلام میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔۔۔۔
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔
گرو کی یا د انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیر وکمان لیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
اظہار کی سطح پر آزرؔ نے نئی شعری روایات سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ غیر آرائشی زبان،سامنے کی مگر تازہ علامتوں کا استعمال، فارسی اضافتوں سے کم سے کم کام لینے کا ہنر،صنعتِ تضاد کے ذریعہ بیان کو پر تاثیر بنانے کا ملکہ ،جذبہ و فکر کی ہم آہنگی،قافیہ و ردیف کی بنیاد پر شعر کو استوار کرنے میں مہارت ایسی خصوصیات ہیں جن سے آزرؔ کے شعری مزاج اور انفرادیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ترکیب سازی میں بھی آزرؔ کے یہاں جدت نمایاں ہے۔جسم کی کشتی ،خواہشوں کا بحرِ بیکراں،سکوت موسم مکان،نیلا سراپا،تاریخی مسجدوں کا سکوت،برہنہ طرزِ بیان،سیاہ لفظوں بھری داستان ،مٹی کا بادشاہ،دھوئیں کا لشکر، کربِ فلسطین وغیرہ۔اس طرح ان تراکیب کی مدد سے وہ نئی شعری زبان کونئے جہات سے آشنا کرنے میں بھی بڑی جدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔مثلاً غارِ حرا کے لہجے میں پناہ دینا،ابرہہ کے لہجہ میں عذاب کا آنا ، خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے ہونا، قربتوں کی زد میں آنا،قسطوں میں جوان ہونا،قسطوں میں جینا مرنا وغیرہ۔آزرؔ کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے ان کا شعری مواد کبھی گھسا پٹا نہیں ہوتااس کی وجہ یہ کہ آزرؔ نے زندگی اور دنیا کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے،کائنات کے ذرہ ذرہ کو بغور محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ تخیل کی پرواز بھی آزرؔ کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے
کہ دنیائے غزل میں فریاد آزر ؔ کا نام مستقبل قریب میں سورج کی طرح نمایاں ہوگا کیوں کہ آزرؔ نے غزل میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریاد آزرؔ کی تخلیقی آزری
ڈاکٹر کوثرؔ مظہری
شعبہء اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی ۔اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ فریاد آزر ایک ایسے شاعر ہیں جو ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے:
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
۔۔۔۔۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِطلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی لاش کو تنہا ہی د فن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ ،سبھی لوگ گھر گئے اپنے
فریاد آزرؔ نے ر شتوں کے ٹوٹنے اور آدمی کے بکھر جانے کو بھی اپنے شعروں میں پیش کیا شعر ملاحظہ کیجئے:
نہ کوئی دوست نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گئے اپنے
۔۔۔۔
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
۔۔۔۔۔۔
فریاد آزر نے غزل کے چہرے سے پردۂ الہام کو چاک کیا ہے۔وہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں اورمعاشرے میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اسکی نشاندہی کرتے ہیں وہ جدید ذہنوں اور جدید تہذیبی بساط پر کھڑی نئی نسل کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔آزر کے فکری ابعاد کی زد میں عہدِجدید اور عہدِقدیم دونوں ہیں۔ یہاں ایک ہی غزل کے دو شعردیکھئے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِجدید
۔۔۔۔۔
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
تہذیبی سفاکیت کو آئینہ دکھانے کا کام نئی غزل میں خوب کیا گیا ہے لیکن فریاد آزر کے یہاں یہ رنگ قدرے تیز ہے۔ موضو ع اور موتف پر غور کیجئے اور اوپر ذکر کئے گئے انسانی بے بسی کے حوالے سے چند شعر دیکھئے:
(۲)
عجیب طور کی مجھ کوسزاسنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
۔۔۔۔
پانوں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اسے سمجھتے تھے دفتر کا آدمی
انسان کبھی کبھی غفلت شعاری میں اپنی عمر کے قیمتی لمحات گنوا دیتا ہے۔ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ مستقبل کی کامیابی کا راز حال کی محنت اور مشقت میں ہے۔ فریاد آزر ؔ نے بڑی خوبصورتی سے اس مضمون کو پیش کیا ہے۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
اسی طرح کبھی انسانی پس و پیش اور کشمکش کے موضوع کو آزرؔ پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسان کے لئے ایک لمحہ بھی بھاری پڑتا ہے اور کبھی ذرا سی غفلت سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔شعورِ ذات کی کلید احساسِ لطیف ہے۔دونوں کی ہم آہنگی سے ہی فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔آزرؔ اس راز سے واقف ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی اور گردشِ ایام پر ان کی گہری نظر ہے۔جس کے اندر ذرا بھی جھجھک ہے( بلکہ میں اس جھجھک کو میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کہوں گا) وہ زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ فریاد آزر نے اسی بات کو تخلیقیت کے عناصر میں گھلا ملا کر یوں پیش کیا ہے:
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اس پر عذاب اترے گا
فساد بہت ہی سامنے کا موضوع ہے۔اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے فساد کے حوالے سے ایک آدھ شعر نہ کہے ہوں۔ اس کو آزرؔ یوں پیش کرتے ہیں۔
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
فریاد آزرؔ اس دور کے شاعر ہیں لہٰذا س عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، انکی نگاہ ہر اہم موضوع پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے زریعہ آج نہیں تو کل اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے،یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے بخوفِ طوالت محض چند اشعار پیش ہیں۔
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳)
فضائے شہر آلودہ بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون جائے ذوقؔ اب دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
صبح کی تازہ ہوا لے آئیں گے دوکان سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا کتنی بھی آلودہ ہو آزرؔ
ہمارے ذہنوں سے بہتر ہے اب بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے کے لہومیں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا ،اسی کے خون کا پیاسا لگا
اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان ہی صحیح معنوں میں شاعر ی کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کاغباران کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی زبر دست حصہ د اری رہے گی۔
******
ڈاکٹر کوثرؔ مظہری
شعبہء اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی ۔اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ فریاد آزر ایک ایسے شاعر ہیں جو ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے:
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
۔۔۔۔۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِطلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی لاش کو تنہا ہی د فن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ ،سبھی لوگ گھر گئے اپنے
فریاد آزرؔ نے ر شتوں کے ٹوٹنے اور آدمی کے بکھر جانے کو بھی اپنے شعروں میں پیش کیا شعر ملاحظہ کیجئے:
نہ کوئی دوست نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گئے اپنے
۔۔۔۔
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
۔۔۔۔۔۔
فریاد آزر نے غزل کے چہرے سے پردۂ الہام کو چاک کیا ہے۔وہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں اورمعاشرے میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اسکی نشاندہی کرتے ہیں وہ جدید ذہنوں اور جدید تہذیبی بساط پر کھڑی نئی نسل کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔آزر کے فکری ابعاد کی زد میں عہدِجدید اور عہدِقدیم دونوں ہیں۔ یہاں ایک ہی غزل کے دو شعردیکھئے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِجدید
۔۔۔۔۔
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
تہذیبی سفاکیت کو آئینہ دکھانے کا کام نئی غزل میں خوب کیا گیا ہے لیکن فریاد آزر کے یہاں یہ رنگ قدرے تیز ہے۔ موضو ع اور موتف پر غور کیجئے اور اوپر ذکر کئے گئے انسانی بے بسی کے حوالے سے چند شعر دیکھئے:
(۲)
عجیب طور کی مجھ کوسزاسنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
۔۔۔۔
پانوں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اسے سمجھتے تھے دفتر کا آدمی
انسان کبھی کبھی غفلت شعاری میں اپنی عمر کے قیمتی لمحات گنوا دیتا ہے۔ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ مستقبل کی کامیابی کا راز حال کی محنت اور مشقت میں ہے۔ فریاد آزر ؔ نے بڑی خوبصورتی سے اس مضمون کو پیش کیا ہے۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
اسی طرح کبھی انسانی پس و پیش اور کشمکش کے موضوع کو آزرؔ پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسان کے لئے ایک لمحہ بھی بھاری پڑتا ہے اور کبھی ذرا سی غفلت سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔شعورِ ذات کی کلید احساسِ لطیف ہے۔دونوں کی ہم آہنگی سے ہی فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔آزرؔ اس راز سے واقف ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی اور گردشِ ایام پر ان کی گہری نظر ہے۔جس کے اندر ذرا بھی جھجھک ہے( بلکہ میں اس جھجھک کو میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کہوں گا) وہ زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ فریاد آزر نے اسی بات کو تخلیقیت کے عناصر میں گھلا ملا کر یوں پیش کیا ہے:
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اس پر عذاب اترے گا
فساد بہت ہی سامنے کا موضوع ہے۔اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے فساد کے حوالے سے ایک آدھ شعر نہ کہے ہوں۔ اس کو آزرؔ یوں پیش کرتے ہیں۔
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
فریاد آزرؔ اس دور کے شاعر ہیں لہٰذا س عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، انکی نگاہ ہر اہم موضوع پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے زریعہ آج نہیں تو کل اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے،یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے بخوفِ طوالت محض چند اشعار پیش ہیں۔
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳)
فضائے شہر آلودہ بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون جائے ذوقؔ اب دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
صبح کی تازہ ہوا لے آئیں گے دوکان سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا کتنی بھی آلودہ ہو آزرؔ
ہمارے ذہنوں سے بہتر ہے اب بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے کے لہومیں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا ،اسی کے خون کا پیاسا لگا
اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان ہی صحیح معنوں میں شاعر ی کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کاغباران کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی زبر دست حصہ د اری رہے گی۔
******
Subscribe to:
Posts (Atom)