Thursday, June 28, 2012






نئی غزل کے معتبر فنکار: ڈاکٹر فریاد آزرؔ 
رفیق شاہینؔ 
تعلیم منزل ، میرس روڈ،علی گڑھ 

عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ڈاکٹر فریاد آزرؔ ہندوستان کی راجدھانی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ Ph.D.کے اعزاز سے سرفراز جدید لب و لہجے اور نئی آواز کے معتبرو و منفرد شاعر ہیں۔ ان کے تازہ ترین غزلوں کے مجموعے ’’قسطوں میں گزرتی زندگی‘‘ سے بھی پہلے ان کے دو شعری مجموعے ’’خزاں میرا موسم‘‘(۱۹۹۴ء) اور ’’بچوں کا مشاعرہ‘‘ (۱۹۹۸ء) منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر ارباب دانش اور شائقین ادب سے بھر پور خراج تحسین وصول کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی لگن تندہی اور مستعدی کے ساتھ غزل میں مشق و ممارست کرتے چلے آرہے ہیں اور اب ایک قادر الکلام ااور پختہ گو شاعر کہلانے کا بجاا طور پر استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات ملکی اور غیر ملکی صف اول کے ممتاز و معیاری رسائل و جرائدمیں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ آفاق ادب میں آپ کا نام نامی خورشید عالم تاب کی طرح تاباں ہے۔ ادب میں آپ کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے اور آپ کا نام صف اول کے ممتاز و معتبر شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ہر طرح کی ادبی تحریکوں ‘ منصوبوں ‘ رجحانوں اور مخصوص ادبی نوعیت کی نظریاتی جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہے اور کسی بھی ادبی گروہ سے انہیں دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔
سادگی و سلااست‘ ندرت و انفرادیت‘ عصری حسیت‘ سماجی معنویت‘ وحدت و صداقت ‘ ذاتیت و آفاقیت‘ خارجیت و داخلیت ‘ فصاحت و بلاغت ‘ ابخذابیت و لطافت ‘نزاکت وجمالیت اور حلاقت و شعریت ان کی نئی غزل اور شاعری کا خلاصہ ہیں۔ ان کا فکری شعور ان کی اپنی آگہی کے ہنڈولے میں پروان چڑھا ہے۔ اپنے اطراف واکناف اور معاشرے و ماحول پروہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور خارجی محرکات ہی ان کی داخلیت کی گہری جھیل میں شناوری کے عمل سے گزر کر شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر طے کرتی ہے۔ انہوں نے روایت کے طلسماات اور رومانیت کی خیالی جنتوں اور حسن و عشق کے فرضی جہانوں اور پرستانوں میں پناہ لینے کے بجائے خود کو عصرِ حاضر کے سنگین مسئلوں اور تلخ سچائیوں کے حوالے کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کا چہرہ ہمیں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے ؂
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
*
پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید
پھر اس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اگنے لگے
*
ضد کرتا نہیں سستے کھلونوں کے لئے بھی
یہ بچہ میرا مجھ سے بھی بوڑھا نظر آیا
*
حمام میں تو خیر سبھی ہوتے ہیں ننگے
حمام سے باہر بھی وہ ننگا نظر آیا
*
دوسرے سیاروں پہ چلنے کی تیاری کرو
یہ زمیں کرنے کو ہے ساری سبیلیں مسترد
*
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
*
فریاد آزرؔ کی شاعری میں ان کی اپنی آگہی نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ آفتابِ آگہی ان کی دنیائے شعور و ادراک اور جہان فکرو خیال کے ذرے ذرے کو اپنے نور کی زرق برق زریں شعاعوں سے تاباں و درخشاں کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سحاب خامہ سے اشعار کے دمکتے موتی برسنے لگتے ہیں ؂
مجھے بھی کرنا پڑا تھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں گھر جہنم میں
*
سانس بھی لوں اور شہر ہوا سے بچنا چاہوں
دنیا میں رہ کر دنیا سے بچنا چاہوں
*
طرز عمل ایسا بھی نہیں جوزندہ رکھے
پھر بھی میں انجامِ فنا سے بچنا چاہوں
*
کن کن صعوبتوں سے گزرناپڑ ا مجھے
اس زندگی میں بار ہا مرنا پڑا مجھے
جذبے میں آکے میں نے بھی سچ بول تو دیا
پھر اپنے ہی بیاں سے مکرنا پڑا مجھے
*
گھٹ گھٹ کے مر گیا مرے اند رکا آدمی
پھر مجھ میں آبسا کوئی پتھر کا آدمی
*
ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نئی نئی شگفتہ زمینیں تلاش کرکے ان میں اپنے افکار و خیال اپنے نقشے کے مطابق سجا ااور سنوار کر ڈھالتے ہیں۔
’’اندر کا آدمی‘‘‘ ’’بسر جہنم میں‘‘ اور’’ سر اتار دیتا ہے‘‘ جیسی زمینوں والی ان کی غزلیں اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب بخوبی واقف ہیں کہ آج سیاست ہو یا معاشرت ‘ مذہب ہو یا ادب آج زندگی سے وابستہ ہر شعبہ سخت بے راہ روی اور افراا تفری کا شکار ہے۔ ذات پات ،عدم انصاف، مذہبی و ملی عصبیت و منافرت ،اہل سیاست کی ریشہ دوانیاں، مقتدر ہستیوں کی متعصبانہ روش، رہنماؤں کی خود غرضی و خود پرستی اور بے ضمیری ‘ قانون کی خلاف ورزی، حقوق کی پائمالی ‘ قاتل صفت جماعتوں کی وحشت و بربریت ‘ رشوت خوری‘ رشتوں سے لاتعلقی‘ تہذیب و تمدن سے بیزاری ‘ اعلیٰ قدروں کی پسپائی اور جائزہ و ناجائز طور پر دولت کمانے کی ہوس نے اس ارضی جنت کو ایک شعلہ فشاں جہنم میں تبدیل کردیا ہے جہاں نیک دل سیدھے سچے ایماندار اور شریف انسانوں کے لئے جینا حرام ہوکر رہ گیا ہے۔ خود پرستانہ اور خود غرضانہ نئے نئے معیارات نے معاشرے کو سنگین مسائل کا ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقتور اور دولتمند انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں اورغریب و شریف انسان اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سہمے اور سکڑے بیٹھے تبدیلی وقت کے مشاہدے میں مصروف ہیں۔ زندگی کو کہیں بھی جائے اماں نصیب نہیں اور موت سے بھی بدتر زندگی بڑی بے یقینی کے عالم میں بسر ہورہی ہے۔ 
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ایسے ہی ناموافق حالات اور معاشرے کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی اپنی شاعری میں بھر پور عکاسی کی ہے اور خوب کی ہے ؂ 

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی
اے مری جانکاہ قسطوں میں گزرتی زندگی
*
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھوں میں تیرو کمان لیتا ہوں
*
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید 
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
*
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحمِ ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
*
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
*
مدتیں گزریں مجھے احباب کو دیکھے ہوئے
مسئلوں نے مجھ کو ایسی قید تنہائی کی دی
*
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا ‘ خوں ریزی‘ کوفہ ،تشنگی‘ صحرا ‘ فرات
*
پھربیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر
*
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہ ے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی ااولاد ہے
*
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
*
کم زور شہ زورسے ‘ معصوم گنہگار سے اور مظلوم ظالم سے ہمیشہ ہی تباہ و تاراج ہوتا رہا ہے ۔ جھوٹ اقتدار کی مسند پر متمکن ہو کر وقت کا سب سے بڑا سچ بن جاتا ہے۔طاقتور اپنے کسی بھی عمل پر جواب دہی سے مستثنیٰ ہے جبکہ کمزور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں۔ اس ظلم اور ناانصافی پر نہ تو زمین کی چھاتی شق ہوتی ہے اور نہ ہی آسمان کا کلیجہ پھٹتا ہے البتہ ایک کونے میں بیٹھی ہو ئی لاچار انسانیت خرور خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے ۔
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی 
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہیں حقیقت بھی 

مرگئے بوئے ہوئے زہر سے اتنے معصوم
اب اترتے نہیں کھیتوں میں پرندے معصوم
*
آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت
بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم
*
اب اترتے ہیں کسی اور ہی سیارے پر
اتنے خائف ہوئے دھرتی سے پرندے معصوم 
*
جو سیاست نے اٹھا دی ہے دلوں کی درمیاں
جانے کب ہوں گی وہ زہریلی فصیلیں مسترد
*
وہ امن و آ شتی کا نام لے کر 
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
*
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اس کو مجھے بار بار کرنا پڑا
*
ذلیل خود کو اسے باوقار کرنا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کرنا پڑا
مذکورہ مطلع بے پناہ مطلع ہے جو ہزاروں موقعوں پر حوالہ بن کر موقع محل کی نزاکت کا ترجمان ثابت ہوگا۔ ایسے شعر جو شاعر کے تجربے میں قاری کو شامل کرکے اور اس کی تائید حاصل کرکے اس سے مہر تصدیق ثبت کرالیں مشکل سے ہی عالم وجود میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی زبان سادہ لہجہ تیکھا اور اسلوب نگارش ندرت و انفرادیت اور گہرے تاثر کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں احتجاج طنز اور نشتر یت کے حربے بھی
آزمائے گئے ہیں لیکن دبی آواز اور لہجے کی نرمی و شائستگی کے سبب یہ طبیعت پر بارِ گراں ثابت نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر صاحب خیال کے اظہار میں تشبیہات و استعارات ‘ رموز و علامات اور اشاریت و ایمائیت سے مدد لیتے ہیں مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتے ہیں کہ 
ان کی شاعری میں تجریدیت ‘ تکثیریت، مجہولیت ‘ ابہامیت اور مہملیت نہ در آئے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتی ۔ ان کا شعر سلاست و فصاحت اور بلاغت سے آراستہ ہونے کے سبب زبان پر آتے ہی اپنی شرح آپ بن جاتا ہے اور ان کی مقصد سے بھرپور بامعنی شاعری کم پڑھے لکھے قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آجاتی ہے۔
نئے لب و لہجے میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں لیکن فریاد آزرؔ کی بات ہی نرالی ہے۔۔ ان کی آواز کے سر میں جوانوکھی دلکشی اور نغمگی کا پرتو ہے وہ کسی بھی شاعری میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات سے اپنے شعری گلدستے کو سجایا ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ان سبھی شعری جہات کا محاسبہ اور احاطہ ممکنات کی حد سے باہر ہے لہٰذا راقم الحروف ان کے اس مقطع کے ساتھ ہی درِ مضمون بند کرتا ہے ؂
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
***
































No comments: