Thursday, June 28, 2012








سبز ساعتوں کا شاعر: فریاد آزرؔ 

ڈاکٹر ممتاز الحق
ای:۲۲۷،شاہین باغ
جامعہ نگر،نئی دہلی۲۵ 

سنہ ۸۰ کے آس پاس شعراء کی جو نئی نسل سامنے آئی وہ کئی لحاظ سے اپنے پیش رو شعراء سے مختلف تھی۔تازہ دم، نئی فکر اور نئے اسالیب کی موجد، تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند ! ان کا کمٹمنٹ نہ ترقی پسندی سے تھا نہ جدیدیت سے۔ ایک آزاد تخلیقی فضا کا احساس دلانے والے ان شعراء میں ایک اہم نام تھافریاد آزر ! فریاد آزرؔ ۱۹۵۶ میں بنارس میں پیدا ہوئے، انٹر میڈیئٹ کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر عنوان چشتی کی شاگردی میں ۷۷۔۱۹۷۶ میں غزلیہ شاعری کا آغاز کیا۔ 
۱۹۹۴ میں فریاد آزرؔ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم منظرِ عام پر آیا اور پھر ایک طویل وقفہ کے بعدسنہ ۲۰۰۵ میں دوسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا۔اس طویل وقفہ کی وجہ ایسے مسلسل حادثات تھے جنھوں نے آزرؔ کے حوصلے پست کر دئے اور ان کی ذاتی زندگی بھی ایک مسلسل بے سکونی ، ایک کرب ناک اضطراب اور ایک خاموش قیامتِ صغرا بن کر رہ گئی۔
خزاں میرا موسم اور قسطوں میں گزرتی زندگی دونوں مجموعوں کے نام شاعر کے فطری درد و غم ، اضطراب اور محرومی کے غماز ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی حساس فن کار ان سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی کا عرفان انھیں جذبات و احساسات کا مرحونِ منت ہے۔آزرؔ کے یہاں ذاتی غموں اور ناکامیوں نے اس رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔۔۔۔
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی مرثیہ اپنا
کہ اپنے بعد بھلا اور کون تھا اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ ثقف ِ آسماں جلتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاس ،محرومی، تذبذب، کرب،خوش فہمی،انا
اتنے ساماں تھے،مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا
درد صدیوں سے مرا نام و نصب جانتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا ، فلسطین اور بوسنیا کی علامتیں بتاتی ہیں کہ شاعر کا غم محدود نوعیت کا نہیں ہے،یہ اسے ورثہ میں ملا ہے اور اس غم میں پوری ایک نسل اس کی شریک ہے۔ اسے صرف اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ حق کا طرفدار ہے اور اسکی وابستگی دینِ محمدی سے ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ آزرؔ کی پسندیدہ علامتیں قرآن،رسول،اذان، نماز، سورہء رحمان، سورہء یاسین وغیرہ ہیں۔سبز رنگ ان کے یہاں خدا شناسی، خدا ترسی، پاکیزگی، اخوت ومحبت اور حق گوئی و بے باکی کا استعارہ ہے۔سبز رنگ کے مختلف شیڈس آزرؔ کے تخلیقی تجربات کی رنگا رنگی کا وافر ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان پرکشش تراکیب پر نظر ڈالیں: سبز صدی ،سبز لمحات، سبز ہوا، سبز لمس،سبز سایے، سبز موسم،سبز رخت، سبز ہاتھ اور سبز گھاس! اور جب یہ ترکیبیں جزوِ شعر بنتی ہیں تو یہی سبز رنگ کئی دوسرے رنگوں کے پیکر تخلیق کرتا ہے اور شعر کی بلاغت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ 

نئی رتوں نے ہوا کی رو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی 
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آ رہی ندائے اذان بھی چپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تو جڑ سے کاٹ ہی دی تھی روایتاً
یہ سبز گھاس ہے کہ اگی آ ر ہی ہے پھر
۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی طاقتیں مشرق اور خاص طور پر اسلام کو ہمیشہ زیر کرنے اور اور اسے بدنام کرنے کی فکر میں رہی ہیں،ان کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں مگرمشرقی ممالک کبھی گلوبلائزیشن کے نام پر، کبھی تیل کی سیاست اور کبھی ایٹمی توانائی کے حربوں سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ آزر ؔ کی شاعری اس صورتِ حال کے خلاف شدید احتجاج درج کرتی ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے و ہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے وہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا 
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزرؔ کی شاعری میں اقلیتی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور بعض مواقع پر انھیں دوئم درجہ کا شہری قرار دیا ہے۔ ہندستان میں بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا اس امتیاز کی بدترین شکل ہے۔۔۔ ۔ ۔۔ 
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے
میں سر اٹھا ہی نہ پاؤں زمانہ چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔
آزر ؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ ساری دنیا میں ملتِ اسلامیہ خود انتشار کا شکار ہے۔ اس کی ناکامی کا خاص سبب یہی ہے۔ اس رویہ کے خلاف آزرؔ کے یہاں شدید برہمی ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جدا جدا رگِ ظالم پہ وار کرتے ہیں 
ستم زدہ کبی وحدت میں کیوں نہیں آتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲)
(۳)
متحد ہو کر نہ سورج کی چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنؤں کے پر کتر جائے گی رات
حالانکہ آزرؔ کی شاعری کا مرکزی خیال قومی اور بین اقوامی مظالم کے خلاف شدید احتجاج ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس عہد کے دیگر مسائل کی طرف ان کی نگاہ نہیں جاتی۔سماجی، سائنسی،سیاسی،معاشی، تہذیبی،مذہبی،ادبی گویا کہ ہر طرح کے مسائل پر وہ بہت باریکی سے نگاہ ڈالتے ہیں۔مندرجہ ذیل قبیل کے بے شمار اشعار آزرؔ کے کلام میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ 
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔۔۔۔
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔
گرو کی یا د انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیر وکمان لیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
اظہار کی سطح پر آزرؔ نے نئی شعری روایات سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ غیر آرائشی زبان،سامنے کی مگر تازہ علامتوں کا استعمال، فارسی اضافتوں سے کم سے کم کام لینے کا ہنر،صنعتِ تضاد کے ذریعہ بیان کو پر تاثیر بنانے کا ملکہ ،جذبہ و فکر کی ہم آہنگی،قافیہ و ردیف کی بنیاد پر شعر کو استوار کرنے میں مہارت ایسی خصوصیات ہیں جن سے آزرؔ کے شعری مزاج اور انفرادیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ترکیب سازی میں بھی آزرؔ کے یہاں جدت نمایاں ہے۔جسم کی کشتی ،خواہشوں کا بحرِ بیکراں،سکوت موسم مکان،نیلا سراپا،تاریخی مسجدوں کا سکوت،برہنہ طرزِ بیان،سیاہ لفظوں بھری داستان ،مٹی کا بادشاہ،دھوئیں کا لشکر، کربِ فلسطین وغیرہ۔اس طرح ان تراکیب کی مدد سے وہ نئی شعری زبان کونئے جہات سے آشنا کرنے میں بھی بڑی جدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔مثلاً غارِ حرا کے لہجے میں پناہ دینا،ابرہہ کے لہجہ میں عذاب کا آنا ، خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے ہونا، قربتوں کی زد میں آنا،قسطوں میں جوان ہونا،قسطوں میں جینا مرنا وغیرہ۔آزرؔ کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے ان کا شعری مواد کبھی گھسا پٹا نہیں ہوتااس کی وجہ یہ کہ آزرؔ نے زندگی اور دنیا کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے،کائنات کے ذرہ ذرہ کو بغور محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ تخیل کی پرواز بھی آزرؔ کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے 
کہ دنیائے غزل میں فریاد آزر ؔ کا نام مستقبل قریب میں سورج کی طرح نمایاں ہوگا کیوں کہ آزرؔ نے غزل میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: