کچھ دن گلوبل
گانو میں
غزلیں
ڈاکٹرفریاد آزرؔ
نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مجموعہ کو اردو اکادمی دہلی نے 2009 کی بہترین شعری کتاب کے ایوارڈ سے نوازا۔
*
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں!
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں
تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں‘پھر پانووں پر ‘پھر سفر درسفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں
اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں
منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا‘ ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں
*
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ میرا‘‘
کہ میرے بعد بھلا اور کون تھا میرا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
یہی کہ سانس بھی لینے نہ دے گی اب مجھ کو
زیادہ اور بگاڑے گی کیا ہوا میرا
میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا
مرے سفر کو تو صدیاں گزر گئیں لیکن
فلک پہ اب بھی ہے قائم نشانِ پا میرا
بس ایک بار ملا تھا مجھے کہیں آزرؔ
بنا گیا وہ مجھی کو مجسمہ میرا ا
*
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ سر کو سائباں چھوٹا لگا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں ! قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس‘ محرومی‘ محبت‘ کرب‘ خوش فہمی‘ انا
اتنے ساماں تھے‘ مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
جی رہا ہے وعدۂ فردا پہ تیرے اے خدا
ورنہ اس بندے کو تیرا یہ جہاں چھوٹا لگا
ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب
جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا
دور سے قطرہ بھی اک دریا نظر آیا مجھے
قربتوں کی زد میں بحرِ بیکراں چھوٹا لگا
*
اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
اِدھر سسکتے ہوئے لبوں کا برہنہ طرزِ بیان بھی چپ
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا‘ ہوگیا وہ خالی مکان بھی چپ
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی
کہ سبز صدیوں سے گونجتی آرہی ندائے اذان بھی چپ
کہیں کوئی سر پھری ندا پردۂ سماعت بھی نوچ ڈالے
مگر کہیں دہشتِ سماعت سے احتجاجی زبان بھی چپ
پکارتا تھا پناہ لے لے کوئی بھی سائے میں میرے آزرؔ
تھی دھوپ ایسی ہمارے سر پر کہ ہوگیا سائباں بھی چپ
*
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا
آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا
پانو کے نیچے سلگتی ریت‘ صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا
نوح ؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور
خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا
ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر
دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا
سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے
سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا
جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس
روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا
*
کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آجائے
ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے‘ کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں
قدم ادھر ہی اٹھے جارہے ہیں جس جانب
سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں
کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی
مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں
نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!
میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں
*
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خودساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا۔!
اور پھر آگ کے دریا میں گرایا ہے مجھے
کیوں مری روح ہوئی جاتی ہے چھلنی چھلنی
کس لئے کربِ فلسطین بنایا ہے مجھے
مجھ کو بپھرے ہوئے دریا ؤں کی لہر وں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرا یا ہے مجھے
بارہا بہکے مرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے
*
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیا۔!
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اُس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
بے بسی سے مِری‘ بے حِس نہ سمجھ لینا مجھے
دل میں وہ لاوا اُبلتا ہے کہ رب جانتا ہے
شاخ ہلنے پہ بھی کوئی نہ اُڑا پیڑوں سے
وہ پرندوں سے ملاقات کے ڈھب جانتا ہے
ہم نے نقاد کی اس درجہ پذیرائی کی
آج وہ خود کو مسیحائے ادب جانتا ہے
*
حدِّنظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کاکوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرایے داروں کے پایے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہوگیے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی
ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا
سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر
تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھرمیں بدل جاتا ہے
ایک لمحہ بھی ٹھہرتا نہیں لمحہ کوئی
پیش منظر پسِ منظر میں بدل جاتا ہے
نقش ابھرتا ہے امیدوں کا فلک پر کوئی
اور پھر دھند کی چادر میں بدل جاتا ہے
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
اپنے مفہوم پہ پڑتی نظر جب اس کی
لفظ اچانک بتِ ششدر میں بدل جاتا ہے
*
گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
گر فرشتہ رفعتِ انساں تک اڑ کر دیکھتا
سب کی آنکھیں رکھّی تھیں گِروی‘ مرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
زہر کا رنگ اس کے بھی ہوجاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا‘ شنکر دیکھتا
لے ہی آئی کھینچ کر آدم کو شہروں کی کشش
آخرش کب تک کوئی صحرا سمندر دیکھتا
اجبنی آندھی مجھے ساحل سے لے کر اُڑ گئی
ورنہ میں بھی آگ کے دریا میں جل کر دیکھتا
کیوں ترے لب پر قصیدے ہیں مرے کردار کے
میری خواہش تھی ترے ہاتھوں میں پتھر دیکھتا
*
سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
یہ کون چھپ گیا صحراؤں میں بُلا کے مجھے
میں اس کی باتوں میں غم اپنا بُھول جاتا مگر
وہ شخص رونے لگا خود ہنسا ہنسا کے مجھے
اسے یقین کہ میں جان دے نہ پاؤں گا
مجھے یہ خوف کہ روئے گا آزماکے مجھے
جو اپنے لوگوں میں میری ہنسی اڑاتا رہا
قریب آیا تو رویا گلے لگا کے مجھے
میں اپنی قبر میں محوِ عذاب تھا لیکن
زمانہ خوش ہوا دیواروں پر سجا کے مجھے
یہاں کسی کو کوئی پوچھتا نہیں آزرؔ
کہاں پہ لائی ہے اندھی ہوا اڑا کے مجھے
*
خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھی
بچھڑ کے اس سے دعا کے لہجے کی ضد عجب تھی
ہوائے شفقت چُھری بھی والد سے چھین لیتی
پہ سبز موسم کے ایک بیٹے کی ضد عجب تھی
کھلونا ایسا جو گھر کے بوڑھوں کے کام آئے
نئی نظر کے غریب بچے کی ضد عجب تھی
یوں کوئی شاید مزاج ہی پوچھ لے ہمارا
مسرتوں میں اداس رہنے کی ضد عجب تھی
میں جس کی خاطر نماز پڑھتا رہا ہمیشہ
اُسے دعاؤں میں بھول جانے کی ضد عجب تھی
بس ایک لمحے کی مَوت اچھی بھلی تھی آزرؔ
مگر تجھے قسط قسط مرنے کی ضد عجب تھی
*
کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
خواب سے پہلے ہی تعبیر نظر آنے لگی
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزید وں کے خلاف
پھر مرے سر پہ وہ شمشیر نظر آنے لگی
پھر مجھے رقص کے احکام ملیں گے شاید
پھر مرے پاؤں میں زنجیر نظر آنے لگی
ناؤ کاغذ کی لیے کود پڑے اہلِ جنوں
آگ دریا میں وہ تحریر نظر آنے لگی
تجھ سے بچھڑے تو عجب حال ہوا دل کا مگر
شخصیت اور ہمہ گیر نظر آنے لگی
جانے کس سمت سے آئی تھی ہوائے سازش
آگ میں وادیِ کشمیر نظر آنے لگی
*
ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
گل احتجاج کی قندیل ہونے والی ہے
زمیں پہ آمدِ جبریل ختم ہو بھی چکی
ندائے صورِ سرافیل ہونے والی ہے
ہزاروں ابرہہ لشکر سجا رہے ہیں تو کیا
ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے
میں تھک چکا بھی ہوں اور آخری صدا میری
انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے
اِک ایک کرکے گرے جارہے ہیں سارے درخت
دعا سے خالی یہ زنبیل ہونے والی ہے
ذرا سی دیر میں دیوارِ قہقہہ آزرؔ
فصیل گریہ میں تبدیل ہونے والی ہے
*
اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگا
وہ شخص مجھ سے اور زیادہ ہی کچھ لگا
شہرِ جدید دل کو بھلا پوچھتا ہے کب
ہاں ذہن اس کا سب کو کشادہ ہی کچھ لگا
بس اس لیے سفر میں رہا میں تمام عمر
منزل سے پرکشش مجھے جادہ ہی کچھ لگا
سب لوگ خوش تھے حبس کی مدت گزر گئی
لیکن ہوا کا اور ارادہ ہی کچھ لگا
سب اُس کو بے وقوف سمجھتے رہے مگر
وہ عقل مند مجھ کو زیادہ ہی کچھ لگا
ہر چند گام بعد اترنا پڑا اُسے
وہ شہسوار ہم کو پیادہ ہی کچھ لگا
*
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہا ئی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی
آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے
اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے برس بھی
پہلے بھی دریا دریا برسی تھی برکھا
صحرا صحرا پیاس لکھے گی اب کے برس بھی
جس میں وِش کا واس ہوا کرتا ہے آزرؔ
جان وہی وِشواس لکھے گی اب کے برس بھی
*
اپنے ہی معنٰی کا لفظوں پر اثر کوئی نہیں ہے
مستند کتنے بھی ہوں اب معتبر کوئی نہیں ہے
کیا المیہ ہے سنہرے موسموں کے کارواں کا
سب سفر میں ہیں‘ کسی کا ہمسفر کوئی نہیں ہے
آخرش کب تک مکانوں میں مجھے رہنا پڑے گا
کیا مرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں گھر کوئی نہیں ہے
کس کی خاطر اوڑھ رکّھی ہے ردائے انتظاراں
اس نئی رُت میں کسی کا منتَظر کوئی نہیں ہے
گل نظر آتا نہیں تو نرگسِ بے نورہے کیا
اہلِ دیدہ ہیں یہاں سب‘ دیدہ ور کوئی نہیں ہے
صبر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے آزرؔ وگرنہ
ان درختوں پر مری خاطر ثمر کوئی نہیں ہے
*
عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
لہولہان ہے پنچھی مگر اڑان میں ہے
بچاؤں لاکھ مگر بھیگ بھیگ سا جائے
وہ ایک عکس جو پلکوں کے سائبان میں ہے
چراغِ آرزو بجھنے بھی تو نہیں دیتا
وہ ایک آس کا پنچھی جو آسمان میں ہے
نحیف پھولوں میں باقی ہے رس ابھی شاید
کہ تتلیوں کا ٹھکانا ابھی بھی لان میں ہے
ذرا سا لمس اُسے چُور چُور کردے گا
وہ ایک شیشہ بدن مرمریں مکان میں ہے
اب اس جبیں کو سند ہائے کامیابی دے
ازل سے بیکراں سجدوں کے امتحان میں ہے
*
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تما م قرض ادا کرکے ’ساہُکاروں‘ کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں
ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹارہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں
یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہمارے بچے ہوئے تھے جوان قسطوں میں
اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں
*
اب مناظر جنگلوں کے بھی ڈسیلے ہوگئے
مبتلا جدت پرستی میں قبیلے ہوگئے
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں
راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہوگئے
یہ قیامت کی علامت ہے یا کوئی انقلاب
سبز پیڑوں کے ہرے پتے بھی نیلے ہوگئے
جانے اس کے جسم میں کن موسموں کا زہر تھا
جس کو چھوتے ہی ہوا کے ہاتھ نیلے ہوگئے
ورنہ وہ تو میرے دامن سے لپٹ جانے کو تھا
وہ تو کہئے کچھ نئے حالات‘ حیلے ہوگئے
*
اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
ہم خود اپنی راہ کی دیوار ہو کر رہ گئے
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اُس مکاں میں ہم کرایے دار ہوکر رہ گئے
کربلائے وقت کے میدان سے مفرور لوگ
خاندانی غازیِ گفتار ہو کر رہ گئے
دوریاں نزدیکیوں میں ہوگئیں تبدیل جب
جس قدر مشتاق تھے بیزار ہو کر رہ گئے
جیتنے نکلے تھے آزرؔ دشمنِ امت کا دل
دشمنوں کے ہاتھ کی تلوار ہوکر رہ گئے
*
بند دریا سے بھی برداشت کہاں تک ہوگا
اب کے سیلاب جو آیا تو بھیانک ہوگا
وہ وفادارِ وطن ہے یہ سبھی مانتے ہیں
بے وفائی بھی کرے گا تو کسے شک ہوگا
اُس کے سینے میں سلگتی ہوئی نفرت ہوگی
اُس کے ہونٹوں پہ مگر عید مبارک ہوگا
پہلے چن چن کے جلا دیں گے ہمیں فرقہ پرست
دیر تک شہر میں پھر امن کا ناٹک ہوگا
ہم سے ہمدردیاں کی جائیں گی دن بھر آزرؔ
اور پھر ہم پہ ہی شب خون اچانک ہوگا
*
گر یہی حال رہا دہر میں زہریلوں کا
پھر اتر آئے گا لشکر بھی ابابیلوں کا
ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کردے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہَوا جھیلوں کا
سبز لمحات سے جب ہوگی ملاقات اُس کی
خود پہ روئے گا بہت عہد مِزائیلوں کا
کوئی ہابیل صفت شخص نہ بچنے پائے
یہ ہے اعلان مرے شہر کے قابیلوں کا
کیوں بلائیں مرا گھر چھوڑ کے جاتی ہی نہیں
ختم کیوں ہوتا نہیں سلسلہ تاویلوں کا
*
’’خزاں محور‘‘ سے ہٹتا جا رہا ہوں
میں شاید خود سے کٹتا جا رہا ہوں
صدی بننے کی خواہش کا بُرا ہو
میں لمحوں میں سمٹتا جا رہا ہوں
سبھی وارث ہیں دعوے دار میرے
میں اب حصوں میں بٹتا جا رہا ہوں
مری توقیر بڑھتی جارہی ہے
مگر میں ہوں کہ گھٹتا جا رہا ہوں
تعاقب میں مرے ‘سورج ہے اور میں
اندھیروں سے لپٹتا جا رہا ہوں
*
ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
کہ گانو جلنے لگا ہے گلی گلی بابا!
درخت کیوں ہیں سراسیمگی کے عالم میں
مچی ہے کیسی پرندوں میں کھلبلی بابا
نہ جانے کیسا بچھا یا تھا جال چوروں نے
کہ آج پھنس گیا سِم سِم میں خود علی بابا
یہ رات یوں بھی ہمیں جاگ کر گزارنی ہے
کہانی کوئی سناؤ بری بھلی بابا
یہاں تو سر ہی نہیں سارا شہر زد میں ہے
ہے کیسی فرقہ پرستی کی اوکھلی بابا
حنائی روح چتاؤں کے پاس گھومتی ہے
یہ کس کا جسم جلا آج صندلی بابا
*
جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہیں پایا
مری آنکھوں نے اب تک خواب کا منظر نہیں پایا
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
شگفتہ جسم سے اُس نے بجھالی پیاس اندھیرے میں
جب اس کا ہاتھ شانے تک گیا تو سر نہیں پایا
ابھی سے جانے کیوں شاہین گھبرانے لگا مجھ سے
مری پرواز نے اب تک کوئی شہپر نہیں پایا
تمہاری بے حسی سے روٹھ کر سوچا تھا مرجاؤں
میں شرمندہ بہت ہوں شاید اب تک مرنہیں پایا
بہت اکتا کے آیاتھا وہ خالی پن سے اندر کے
جو دیکھا غور سے اس نے تو کچھ باہر نہیں پایا
وگرنہ تم مرے ہمدردوں میں شامل نہیں ہوتے
تمہارے ہاتھ نے شاید کوئی پتھر نہیں پایا
یہاں کے پتھروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے
تمہارے شہر نے شاید کوئی آزرؔ نہیں پایا
*
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہوگیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہوگیا
نہ جانے کون سی ادا بُری لگی تھی روح کو
بدن کا پھر تمام کھیل کود ختم ہوگیا
معاہدے ضمیر سے تو کرلئے گیے مگر
مسرتوں کا دورۂ وفود ختم ہوگیا
بدن کی آستین میں یہ روح سانپ بن گئی
وجود کا یقیں ہوا‘ وجود ختم ہوگیا
بس اک نگاہ ڈال کر میں چھپ گیا خلاؤں میں
پھر اس کے بعد برف کا جمود ختم ہوگیا
مجاز کا سنہرا حُسن چھا گیا نگاہ پر
کھلی جو آنکھ جلوۂ شہود ختم ہوگیا
*
سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
مرے خلاف وہ مجھ سا بیان کیا دے گا
ہے طاری سینے میں تاریخی مسجدوں کا سکوت
یہاں پہ کوئی مسافر اذان کیا دے گا
مرے گناہوں پہ رحم آہی جائے گا اس کو
عذاب وہ مرے شایانِ شان کیا دے گا
جو خود محل سے نہ نکلے محافظوں کے بغیر
وہ سارے شہر کو امن و امان کیا دے گا
مجھے یقین ہے زندہ رہے گا آزرؔ بھی
کوئی کسی کی محبت میں جان کیا دے گا
*
نکل بھی جائے وہ اعدا کی گھات سے بچ کر
نہ جاسکے گا کہیں اپنی ذات سے بچ کر
یہاں فرار کی راہیں تو ہیں مگر مسدود
کہاں کو جائے کوئی کائنات سے بچ کر
تمام عمر بس اپنے بدن میں قید رہے
عجب ملال رہا حادثات سے بچ کر
عذاب راہوں سے بچنا یہاں نہیں ممکن
کہاں ہم آگئے شہرِ نجات سے بچ کر
ہمیشہ مشکلیں رہتیں مرے تعاقب میں
میں بھاگ جاتا اگر مشکلات سے بچ کر
*
جہاں اک خواب تھا لا منظری کا
ہر اک منظر ملا لا منظری کا
مناظر کم نگاہی کے ہیں شاکی
نگاہوں کو گِلہ لا منظری کا
کوئی منظر نہیں اس روشنی میں
بجھا دو یہ دیا لا منظری کا
مری آنکھیں تحیّر ڈھوندتی ہیں
کوئی منظر دکھا لامنظری کا
نظر مجھ پر کوئی ٹھہرے تو کیوں کر
مجھے چہرہ ملا لا منظری کا
اسے سب دیکھ کر حیران کیوں ہیں
یہ ہے ہی آئینہ لا منظری کا
*
نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہے
وہ پھر سے خواب جزیرے پہ لوٹ آیا ہے
وہ مر نہ جائے گناہوں کے بوجھ سے دب کر
تمام نیکیاں دریا میں ڈال آیا ہے
ہوا وجود مٹادیگی ایک لمحے میں
یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے
نہ جانے کس کے تصور میں جی رہی ہوگی
خدا نے جس کو مرے واسطے بنایا ہے
درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن
مرے بدن پہ ابھی میرے سرکا سایہ ہے
اسی غرور میں ہم بھی بہک گیے آزرؔ
کہ اپنے آگے فرشتوں نے سرجھکایا ہے
*
محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
ہمارے عہد کو ماضی سا حال دینا تھا
یہ کیا کِیا کہ فقط آسماں سے پھینک دیا
ہمیں عروج کی حد تک زوال دینا تھا
تری طرح میں اکیلا تو رہ نہیں سکتا
مجھے جہاں میں کوئی ہم خیال دینا تھا
فریب دیتا رہا ہے جو لفظ صدیوں سے
اُسے لغات سے باہر نکال دینا تھا
تمام عمر انہیں خواہشوں کے ساتھ رہے
کہ جن کو وقت کے ہمراہ ٹال دینا تھا
جو ساری نیکیاں دریا میں ڈال آئے ہو
تو پھر گناہ سمندر میں ڈال دینا تھا
*
نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
لگے بجھانے کہ ہمسایے ڈرگیے اپنے
میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کرلوں گا
کہ تم بھی جاؤ‘ سبھی لوگ گھر گیے اپنے
زمانے والے اِسے خود کشی سمجھتے رہے
مری چُھری سے مرا قتل کرگیے اپنے
نئے زمانے کے بچے بڑوں سے کہنے لگے
خوشی مناؤ تمہیں‘ دن گزر گیے اپنے
یہ روزگار کی آندھی عجیب آندھی ہے
ذرا سی تیز ہوئی تھی بکھر گیے اپنے
نہ کوئی دوست‘ نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گیے اپنے
*
(پاکستانی ادب دوست سفارت کار محبوبؔ ظفر کی ہندوستان سے رخصتی پر)
اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہے
شانۂ جاں سے ہمارے‘ سر جدا ہونے کو ہے
پھر ہمارے شہر پر آنے کو ہے شاید عذاب
امن کا اک اور پیغمبر جدا ہونے کو ہے
اب تمازت دھوپ فوجوں کی جلادیگی ہمیں
سبز سایوں کا حسیں لشکر جدا ہونے کو ہے
اب تو بس اپنے بدن ہی میں رہیں گے قید ہم
اب فصیلِ دوستاں سے در جدا ہونے کو ہے
ذوقؔ اب دلّی کی گلیوں میں بھلا رکّھا ہے کیا
شہر سے وہ دلربا پیکر جدا ہونے کو ہے
جو دلوں میں گھر بنا لیتا ہے بس اک آن میں
ہم سے اب وہ شوخ جادوگر جدا ہونے کو ہے
کس قدر گم سم ہیں آزرؔ ساری شاخیں اور طیور
اک پرندہ پیڑ سے اڑکر جدا ہونے کو ہے
*
شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
اب آگ خانۂ نمرود تک پہنچنے کو ہے
ہے جس پہ لکّھا ہوا لا الٰہ الا اللہ
وہ ہاتھ گردنِ مردود تک پہنچنے کو ہے
جو رِستا رہتا ہے ناسورِ جسمِ فردا سے
وہ زہر لمحۂ موجود تک پہنچنے کو ہے
جہاں سے کوئی کہیں راستہ نہیں جاتا
دل ایسی وادئ مسدود تک پہنچنے کو ہے
گناہ لمحوں کے چہرے بتا رہے ہیں کہ اب
یہ دنیا’’نیست سے نابود‘‘ تک پہنچنے کو ہے
اگر نہ بیچ میں حائل ہوئے مرے اعمال
تو پھر دعا مرے معبود تک پہنچنے کو ہے
*
اُس سے نالاں تھے ’’فرشتے‘ وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یا د آیا نہیں دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اُس کی
جانے وہ میرے تصور میں ملا کس سے تھا
جانے تا عمر اُسے کس نے اکیلا رکھا
جانے اس شخص کا پیمانِ وفا کس سے تھا
وہ اگر دور تھا مجھ سے‘ تو تھی قربت کس سے
وہ مرے پاس اگر تھا تو جدا کس سے تھا
لاکھ شکوہ ہو سماعت کو صدا سے آزرؔ
روکتا کو ن کسے‘ کوئی رُکا کس سے تھا
*
ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
پر فضاؤں میں آندھیاں تھیں بہت
وہ کسی طور بھی نہ کُھل پایا۔
میری باتوں میں چابیاں تھیں بہت
مسکراتی تھیں ساری دیواریں
اور گھر میں اداسیاں تھیں بہت
تیری سیرت پسند تھی ورنہ
تیری صورت کی لڑکیاں تھیں بہت
خامشی اس کی جان لیوا تھی
اور باتوں میں تلخیاں تھیں بہت
بس نگاہوں سے گرگیا آزرؔ
ورنہ اُس میں بھی خوبیاں تھیں بہت
*
سُنا سُنا کے بہاروں کی داستاں لمحے
مرے وجود میں حل ہوگئے خزاں لمحے
میں آفتاب کی صورت چمک اٹھا ورنہ
چراغ لے کے مجھے ڈھونڈتے کہاں لمحے
وہ میری روح کی تہہ میں نماز پڑھتا رہا
اور اس کے جسم میں دیتے رہے اذاں لمحے
مجھے زمیں کی کشش نے کہیں نہ جانے دیا
صدائیں دیتے رہے لاکھ آسماں لمحے
تمام عمر چراتے رہے نظر مجھ سے
مرے مزاج کے صحرا میں سائباں لمحے
*
میں جب مصیبت میں برگزیدہ کتا ب دیکھوں
تو اپنی ہی زندگی کا بدلا نصاب دیکھوں
مرے خدا میں کبھی نہ پھر ایسا خواب دیکھوں
کہ ننّھی کلیوں کی پنکھڑی بے حجاب دیکھوں
نظر بچاؤں تو اور بھی بد نما ہو منظر
نظر اٹھاؤں تو چاروں جانب عذاب دیکھوں
الٰہی میرے قلم کو وہ قوّتیں عطا کر
کہ میں فلک پر سوال لکّھوں‘ جواب دیکھوں
کبھی تو مظلومیت کو بھی کچھ ملے سہارا
کبھی تو ان ظالموں کا خانہ خراب دیکھوں
*
کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جائے
مجھے ڈر ہے علامت استعارہ ہو نہ جائے
فضاؤں میں دھوئیں کے گیند کھیلے جارہے ہیں
اسی بازی میں گم ماحول سارا ہو نہ جائے
وگرنہ جنگ کایہ لطف بھی جاتا رہے گا
اِکائی دشمنوں کی پارہ پارہ ہو نہ جائے
ابھی تو دیکھنا ہے سارا پس منظر خلا کا
نگاہِ جستجو صرفِ نظارہ ہو نہ جائے
وہی اک بات جو اس کو بتانا چاہتا ہوں
وہی اک بات اس پر آشکارا ہو نہ جائے
اجل کا سامنا تو کیسے کرپائے گا آزرؔ
تجھے یہ زندگی یوں ہی گوارہ ہو نہ جائے
*
یوں ہی سہی چلو کوئی رشتہ بنا رہا
قائم تمام عمر اگر فاصلہ رہا
سب اپنی اپنی منزلِ مقصود پاگئے
کربِ انا لیے میں فقط سوچتا رہا
پھر یو ں ہوا کہ میں نے اسے بھی پناہ دی
صدیوں جو میری جان کا دشمن بنا رہا
اک سِلسلہ بنا رہا یوں ہی تمام عمر
جو لمحہ میرے ساتھ رہا سانحہ رہا
میں بھی نکل نہ پایا تکلف کے دور سے
وہ بھی بڑے ادب سے مجھے چاہتا رہا
*
تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر تھی
کسے خبر تھی نہیں ہے کوئی وجود اس کا
وہ ایک شے جو مری جستجو کا محور تھی
خدا ہی جانے وہ منزل تھی یا سراب کوئی
تمام عمر مسافت مرا مقدر تھی
نہ جانے کیوں میں سناتا تھا بار بار اُسے
وہ ایک بات جو اس کی سمجھ سے باہر تھی
مرے کلام نے آخر جھنجھوڑ ڈالا اُسے
مری غزل ہی مرا آخری پیمبر تھی
خموش‘ اُداس بلا کی حسیں مگر بے حس
وہ بنتِ حوّا تھی یا شاہکارِ آزرؔ تھی
*
پھر مفاہیم میں الفاظ کے وسعت آجائے
کاش ایسا ہو کہ پھر عہدِ رسالت آجائے
فاصلہ ساتھ نبھانے کو ہے لازم ورنہ
سورج آجائے زمیں پر تو قیامت آجائے
پھر نہیں خوف کوئی دونوں بڑے دیووں سے
سبز گلفاموں کو گر تھوڑی سیاست آجائے
اتنے شل ہیں کہ نہیں اٹھتے دعاؤں کے لیے
کچھ تو یارب مرے ہاتھوں میں حرارت آجائے
علم کے بدلے جو کچھ سیکھ رہے ہیں بچے
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ پھر عہدِ جہالت آجائے
*
شدید غم سے میرا کوئی سلسلہ نہیں ملا
یہی سبب ہے غالباً مجھے خدا نہیں ملا
پیمبرانِ شاعری کی صف میں ہم بھی ہیں مگر
یہ اور بات ہے کہ کوئی معجزہ نہیں ملا
کہاں سے دیکھتا میں تیرے خوبرو جہان کو
ہزار خواہشیں تھیں کوئی زاویہ نہیں ملا
زمین گھر چکی تھی سرد آگ کی لپیٹ میں
جہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا
سماعتوں پہ اپنی سب کو اعتماد تھا مگر
کسی کو اجنبی صدا کا نقشِ پا نہیں ملا
حصارِ کائنات سے نکل کے ڈھوندتے تجھے
مگر خلا سے آگے کوئی راستہ نہیں ملا
*
تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے والا
اب یہاں کوئی پیمبر نہیں آنے والا
اپنی آنکھوں کو رکھو پشت کی جانب اپنی
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آنے والا
زہر پینا ہی پڑے گا ہمیں اپنا اپنا
اب کوئی دوسرا شنکر نہیں آنے والا
لاکھ دہرائے یہ تاریخ خود اپنے کو مگر
وہ حسیں دور پلٹ کر نہیں آنے والا
ہم تو یک طرفہ محبت کے ہیں قائل آزرؔ
چاند تو یوں بھی زمیں پر نہیں آنے والا
*
دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھوندتے ہیں
ہم سے بزدل یوں بھی جینے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں
اے زمیں تیری کشش کیوں اس قدر کم ہوگئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
جو حدِ امکان سے بھی دور ہوتا جارہا ہے
ہم وہی کھویا ہوا زرّیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
بے حسی سی ہر گھڑی کیوں ہم پہ ہوجاتی ہے طاری
ہر گھڑی کیوں وقت کا اک تازیانہ ڈھونڈتے ہیں
جب کوئی چہرہ ہمارے خواب میں آیا نہیں تھا
اپنی تنہائی کا وہ رنگیں زمانہ ڈھونڈتے ہیں
*
حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
مگر وہ شخص ہرے جنگلوں میں کھویا رہا
وہ باڑھ آئی کہ بہنے لگا مرا چھپر
میں جس پہ بیٹھا مناظر کا لطف لیتا رہا
گزشتہ دور کی بوباس لے کے آئی تھی
میں رات سبز ہوا سے لپٹ کے روتا رہا
یہ سوچ کر کہ کبھی فاختہ تو آئے گی
وہ گِدّھ شاخ پہ زیتون کی ہی بیٹھا رہا
پکارے گا ہی کوئی سنگِ ناتراشیدہ
اسی امید پہ آزرؔ ہمیشہ تنہا رہا
*
وہ دست رس سے دعاؤ ں کی‘دور تھا کتنا؟
یہ مرحلہ تھا مگر صبر آزما کتنا!
مجھے پھر اس سے تعلق بحال کرنا پڑا
وہ شخص مجھ سے بچھڑ کر اداس تھا کتنا!
اس انتشار کی اک حد بھی تو معیّن ہو
مجھے اب اور بکھیرے گی یہ ہوا کتنا!
مری نگاہ اٹھی جب کسی بدن کی طرف
مرا ضمیر ہوا بے سبب خفا کتنا !
میں دور تھا تو کشش کھینچ لے گئی آزرؔ
قریب پہنچا تو منظر بدل گیا کتنا
*
لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی تھیں
اس کی غزل میں فکر کی گہرائیاں بھی تھیں
ورنہ مرا وجود مجھے مار ڈالتا
شامل مرے مزاج میں خوش فہمیاں بھی تھیں
وہ میرا ہم خیال بھی بالکل نہ تھا مگر
اس کو مرے خیال سے دلچسپیاں بھی تھیں
کچھ اُس کو دیوتا کی طرح مانتا بھی تھا
کچھ اِس میں میری اپنی اداکاریاں بھی تھیں
جس کو بھی دیکھ لے وہ مریض اس کا ہوگیا
آنکھوں میں اس کی چھوت کی بیماریاں بھی تھیں
*
وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
خوش فہمیاں بھی مجھ سے مری چھین لے گئی
گزرے گی بے اصول مری زندگی تمام
اک لڑکی میرے جینے کا آئین لے گئی
حدِّ نگاہ تک ہے خلاؤں کا سلسلہ
وہ مجھ سے سارے انجم و پروین لے گئی
اب زندگی سے موت لڑے گی تمام عمر
ہونٹوں سے جان سورۂ یٰسین لے گئی
ڈھیلا ذرا ہوا تھا مرے ہاتھ سے لگام
آندھی سَمے کی عہدِ سلاطین لے گئی
اب پتھروں کے شہر میں رہنے سے فائدہ؟
آزرؔ جب اپنا فن ہی زمیں چھین لے گئی
*
نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
اسے بھی لے گئی بہلا کے بین کی خوشبو
گلاب اگے تھے مرے شہر کے ہر آنگن میں
مگر فضا میں تھی رقصاں مشین کی خوشبو
مرے وجود کا مجھ کو دلا گئی احساس
مرے گمان سے لپٹی یقین کی خوشبو
نہ جانے کون سی مٹی پڑی تھی گملوں میں
گلاب دینے لگے یاسمین کی خوشبو
میں آسمان پہ پہنچا مگر ستانے لگی
مرے وجود سے لپٹی زمین کی خوشبو
بس ایک آن میں سارے جہاں میں پھیل گئی
بتوں کے شہر سے اٹّھی جو دین کی خوشبو
*
عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
میری دیوانگی کو سجدہ کر
مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے
تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر
مدتوں سے مراہوا ہوں میں
مجھ کو پھر ایک بار زندہ کر
یا حقیقت کا رنگ دے اس کو
یا مرے خواب میں نہ آیا کر!
توڑنے والا جب ملا نہ کوئی
رہ گئے پھول کتنے مرجھا کر
اب خلا کے بدن پہ آنکھوں سے
اپنے آزرؔ کا نام لکھا کر
*
تھا موم دل تو لوگ ستاتے رہے مجھے
پتھر بنا تو مجھ کو سبھی پوجنے لگے
میرے قریب رہ کے اگر ہو اداس تم
پھر مجھ سے دور جاکے بھی خوش رہ نہ پاؤگے
دہرا گیا وہ شخص مری بات اس طرح
دینے لگے تھے لفظ بھی معنٰی نئے نئے
نزدیکیوں نے سارا بھرم دور کردیا
کچھ لوگ صرف دور سے اچھے لگے مجھے
اکثر نگاہِ ذہنِ رسا نے بچا لیا
ہم جب بھی دل کے ساتھ کہیں ڈوبنے لگے
*
نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہوگا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
دلِ حزیں کو اب اُن موسموں کا باب تو دے
ہے اعتماد‘ حقیقت کا روپ دیدوں گا
مری نگاہ کو خوش فہمیوں کا خواب تو دے گا
تجھے بھی جاوداں کردے تری غزل آزرؔ
جہانِ شعر کو اک ایسا انتخاب تو دے
*
چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ کو
اڑا ہی لے گیا صحراؤں کا سفر مجھ کو
کہیں میں بھول نہ جاؤں تجھے بھی میرے خدا
خوشی کا زعم ہٹا اور اداس کر مجھ کو
کہیں وجود مٹا دے نہ آفتاب آکر
بلا رہی ہے کوئی شبنمِ سحر مجھ کو
تو میرے سایے میں آنے کی آرزو مت کر
بنا گیا ہے کوئی آگ کا شجر مجھ کو
ا
سے خبر تھی کہ میں اس کو توڑ ڈالوں گا
پکارتا ہی رہا آئینہ مگر مجھ کو
مرے شعور نے مجھ کو بلالیا واپس
لگا دیا تھا مرے دل نے داؤ پر مجھ کو
*
اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
لیکن خود اس سے‘ اس کا بہت اختلاف تھا
الزام کیا میں دیتا وبھیشن کی ذات کو
مجھ سے ہی جب لہو کا مرے انحراف تھا
اندھا نہ تھا کوئی بھی مرے شہر میں مگر
اک بے حسی کا سب کی نظر پر غلاف تھا
یوں لمحہ لمحہ ختم ہوا جارہاتھا وہ
جیسے کہ اس کی روح میں کوئی شگاف تھا
آزرؔ کی بت تراشی سے واقف تھے سب مگر
آزرؔ غزل تراش ہے یہ انکشاف تھا
*
بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھی
وہ حسنِ سورۂ رحمن لے کے آئی تھی
بڑا عجیب تھا مصنوعی موسموں کا سفر
بہار کاغذی گلدان لے کے آئی تھی
گئی تو پھر نہ ملا بیسویں صدی کا سراغ
نیا زمانہ‘ نئی شان لے کے آئی تھی
یہ اور بات ہمیں کم شناس تھے ورنہ
وہ ایک عہد کی پہچان لے کے آئی تھی
کل اُس سے عہدِ وفا میں ہی لے نہیں پایا
وہ اپنے ہاتھوں میں قرآن لے کے آئی تھی
پھر اس کے بعد بنی شاہکارِ آزرؔ وہ
جو اپنے جسم کی چٹان لے کے آئی تھی
*
شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
صبح کا آدمی شام تک بک گیا
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
چند چاول کے دانوں نے دکھلایا رنگ
اور دھرتی کے ہاتھوں فلک بک گیا
شام کو ہی خریدا تھا خود کو مگر
پھر ضرورت پڑی صبح تک بک گیا
جس کے ہاتھوں کی مہندی خریدی گئی
اس کے اجداد کا گھر تلک بک گیا
جانے کیا شے خریدی ہے اس نے ابھی
اس کے چہرے کا آزرؔ نمک بک گیا
ڈاکٹر فریاد آزرؔ
کچھ دن
گلوبل گانو میں
*
آزماکر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
ٖننھا کمپیوٹر! قلم، کاپی، کتابوں کی جگہ
اِس قدر سوچا نہ تھا ہوجائیں گے بستے جدید
ہوگیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش
دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے جدید
کیوں نہیں لے جاتی اب وحشت بھی صحرا کی طرف
بن گیا کیوں شہر از خود آج صحرائے جدید
دادی اور نانی کے قصوں میں مزہ آتا نہیں
اب سناتے ہیں مرے بچے ا نھیں قصے جدید
سب سنائی دیتا ہے آزر ؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
نوٹ:- غالباً اس طرح کے صوتی قافیوں کا تجربہ غزل میں پہلی بار کیا جارہا ہے
*
اُس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اُسی کے خون کا پیاسا لگا
قہقہوں سے ایک عرصہ تک اذاں سہمی رہی
اور پھر اُس گھر میں عبرت ناک سناٹا لگا
نیکیوں کی فصل ساری کاٹنا چاہے ابھی
دوسرے موسم سے دل اِس درجہ لا پروا لگا
ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھا جس کا رکھ رکھاؤ
زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا
یاد تھے اس کو کتابِ زندگی کے سب حقوق
اپنی ذمہ داریوں سے جو سدا بچتا لگا
مدتوں کے کھوئے بھائی کو وطن میں دیکھ کر
میرے خوابوں کو اچانک زور کا جھٹکا لگا
اس کو اپنے غم سے بھی اتنی پریشانی نہ تھی
میری خوشیاں دیکھ کر جتنا اسے صدمہ لگا
جس کو اپنی ذات میں اک انجمن کہتے ہیں لوگ
غور سے دیکھا تو آزرؔ بے کراں تنہا لگا
*
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات
تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں
نام ان کو دے دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات
سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے یہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
شہروں میں اک شہر تھا بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
*
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم ؑ کی اولا د ہے
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
آج بھی مرہونِ منت ہے "سہاروں" کا ادیب
کیا عجوبہ ہے کہ خالق سے بڑا نقاد ہے
ابتداءًً دل کی گہرائی میں اترا تھا کبھی
اب زبان و لب پہ ہی اسلام زندہ باد ہے
اور کچھ بتلاتے ہیں اعمال ہم سب کے مگر
عظمتِ رفتہ کا ہم سب کو ترانہ یاد ہے
ایسا لگتا ہے کہ شاید ہو گیا قیدی فرار
اب تو رمضانوں میں بھی ابلیسیت آزاد ہے
*
اس نے میرا نام شوریدہ سروں میں لکھ دیا
اور خود کو امن کے پیغمبروں میں لکھ دیا
جب ملا تبدیلئ تاریخ کا موقع اُسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا
شاہی محلوں سے مٹاکر مجھ کو بے حس وقت نے
جا بہ جا سہمے شکستہ مقبروں میں لکھ دیا
جب کتابوں کے لگے انبار تو میں نے بھی پھر
ایک سا مضمون سارے تبصروں میں لکھ دیا
میں نے اُس کو ناقدِ اعظم کہا کچھ سوچ کر
اُس نے مجھ کو عصر کے دیدہ وروں میں لکھ دیا
میں نے یوں ہی نام آزرؔ رکھ لیا تھا بے سبب
اُس نے بھی میرا مقدر پتھروں میں لکھ دیا
*
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے پھر
پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین
اور ظالموں کی فوج ستم ڈھارہی ہے پھر
دوبارہ چکھ لیا نہ ہو ممنو عہ پھل کہیں
وہ بے لباسیوں میں گھری جارہی ہے پھر
ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں
اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر
اس نے تو جڑسے کاٹ دیا تھا روایتاً
یہ سبز گھاس ہے کہ اُگی آرہی ہے پھر
*
وہ سبز ہاتھوں میں لے کر کتاب اترے گا
اب اِس زمیں پہ حسیں انقلا ب اترے گا
وہ بے دریغ کئے جا رہا تھا قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اُس پر عذاب اترے گا
ہم اس بھرم میں سیاہ و سفید سے بھی گئے
کہ سونی آنکھوں میں رنگین خواب اترے گا
نہ ٹوٹ جائے کہیں خوبصورتی کا بھرم
سنا ہے چہرے سے اس کے نقاب اترے گا
بلا سے نقرئی کالج میں داخلہ نہ ملے
نہ بچیوں کے سروں سے حجاب اترے گا
بہا رہا ہے زمیں پر وہ خون بے پایاں
تو کیا فلک سے بھی کوئی جواب اترے گا؟
*
ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی
وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی
خود کو میں جمع کروں گا یونہی ریزہ ریزہ
روز مجھ کو یونہی تقسیم کرے گا وہ بھی
میں بھی موسم کو محبت کی ضمانت دوں گا
ختم نفرت کے جراثیم کرے گا وہ بھی
ایک پر ذات تو دوجے پہ لکھے گا آفاق
شخصیت کو مری دو نیم کرے گا وہ بھی
میں بھی تبدیل کروں گا ذرا اندازِ نظر
کچھ نہ کچھ حسن میں ترمیم کرے گا وہ بھی
جن کو صدیوں نے بکھرتے ہوئے دیکھا آزرؔ
اب انہیں خوابوں کی تنظیم کرے گا وہ بھی
*
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کو ئی نہیں
جانتے سب ہیں مجھے، پہچانتا کو ئی نہیں
جب سے میں نے گفتگو میں جھوٹ شامل کرلیا
میری باتوں کا برا پھر مانتا کو ئی نہیں
آج کل ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے مگر
یہ سنہرا عز م دل میں ٹھانتا کو ئی نہیں
کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب
یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کو ئی نہیں
اپنے اپنے زعم میں ہے مبتلا ہر آدمی
ایک دوجے کو یہاں گر دانتا کو ئی نہیں
میں نے جو کچھ بھی کہا ، سچ کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پھر بھی آزرؔ بات میری مانتا کو ئی نہیں
*
بے کراں شہرِ طلسمات سے آزادی دے
مجھ کو خوابوں کی حوالات سے آزادی دے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ "اوزون" کو فضلات سے آزادی دے
تھک گیاہوں تری شطرنج کی بازی سے بہت
زندگی مجھ کو شہ و مات سے آزادی دے
یہ بدل دیں نہ جہنم میں زمیں کی جنت
اس پرستان کو جنّات سے آزادی دے
ایک مدت ہوئی محبوب وطن سے نکلے
اب سکندر کو فتو حات سے آزادی دے
میں بھی کچھ زینتِ آفاق بڑھاؤں شاید
تو اگر مجھ کو غمِ ذات سے آزادی دے
اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی سیاہی کو ہٹا
دن دکھا مجھ کو بھی اب رات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آجائے قیامت آزرؔ
"گرین ہاؤس "کو بخارات سے آزادی دے
*
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہے حقیقت بھی
اب اپنی اپنی قسمت کس میں کب تک کون رہتا ہے
یہ دنیا ایک تمثیلی جہنم بھی ہے، جنت بھی
اُدھر احباب مجھ سے زندگی جینے کو کہتے ہیں
اِدھر یہ مسئلے دیتے نہیں مرنے کی فرصت بھی
بلا ئیں کیوں چمٹ جاتی ہیں بھولے بھالے لوگوں سے
نہیں آتا ہے کیوں اب ظالموں پر عکسِ آفت بھی
خدا محفوظ رکھے آپکے دامِ شرافت سے
ہمیں معلوم ہے شامل ہے اِس میں شر بھی، آفت بھی
*
گھٹ گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آکے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
کس کو خبر تھی خلد سے آکر زمین پر
فتنے بپا کرے گا یہ گز بھر کا آدمی
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اُسے سمجھتے تھے دفتر کا آدمی
میں وقت پر وہاں بھی نہ پہنچا تھا عادتاً
کب سے پکارتا تھا مقدر کا آدمی
وہ شخص موقع ملتے ہی بن بیٹھا راکشس
گھر والے مانتے تھے جسے گھر کا آدمی
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
*
صدیوں سے بھی عظیم تھی لمحے کی زندگی
جب جی گیا تھا میں بھی مدینے کی زندگی
بدلے میں اُس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
ہم نے گزاردی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
وہ آدمی جوان رہے گا تمام عمر
بچپن میں جی چکا ہے وہ بوڑھے کی زندگی
ظالم حقیقتوں نے مجھے پھر جگا دیا
کتنی حسین تھی مرے سپنے کی زندگی
یوں بے نیازیوں میں کٹی ہے تمام عمر
ہم جیسے جی رہے تھے کرائے کی زندگی
اُس سادہ دل سے مل کے مجھے بھی یہی لگا
اب تک میں جی رہا تھا دکھاوے کی زندگی
آزر ؔ کی زندگی بھی لطیفے سے کم نہ تھی
تھی کتنی کرب ناک لطیفے کی زندگی
*
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے
میں سر اٹھاہی نہ پاؤں زمانا چاہتا ہے
جہاں کہیں بھی میں طاقت کی شکل میں ابھروں
کسی بہانے وہ مجھ کو دبانا چاہتا ہے
مرے وجود سے اِس درجہ خوف ہے اُس کو
کہ میرا نام ونشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
یہ کس چراغ کا جن ہے جو سارے عالم سے
چراغ امن و اماں کے بجھانا چاہتا ہے
میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کا مگر
وہ اپنے آگے مرا سر جھکا نا چاہتا ہے
میں معترض بھی نہیں اُس کے قہقہوں پہ مگر
مجھے رُلا کے ہی وہ مسکرانا چاہتاہے
*
تخیلات میں پھر تاج وتخت اُگنے لگے
زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اُگنے لگے
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اُسی زمین سے ہم لخت لخت اُگنے لگے
پھر انتخاب کا موسم گزرگیا شاید
پھر اُس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اُگنے لگے
کچھ اِس طرح انھیں بے رحمیوں سے کاٹا گیا
نحیف پودوں کے پتے بھی سخت اُگنے لگے
خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت
کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اُگنے لگے
تو کیا ہمیں بھی سفر کا پیا م آنے کو ہے
خیال و خواب میں کیوں سبز رخت اُگنے لگے
*
شبِ سیاہ سے اگتی ہوئی سحر دیکھیں
چلو اندھیرے میں اک تیر مار کر دیکھیں
ملے تو پہلے زمیں کی کشش سے آزادی
کہاں تک اڑتے ہیں پھراپنے بال وپر دیکھیں
بس اک جگہ پہ زیادہ ٹھہرنا ٹھیک نہیں
کہو بلاؤں سے اب اور کوئی گھر دیکھیں
جو مل سکا نہ ہمیں آسمان سے اب تک
چلو زمین سے ہی اب کے مانگ کر دیکھیں
سنا ہے پیار عبادت سے کم نہیں آزرؔ
یہ بات سچ ہے تو ہم بھی کسی پہ مر دیکھیں
*
یہ اور بات کہ لمحوں میں ڈھل گئیں صدیا ں
حصارِ وقت سے باہر نکل گئیں صدیاں
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پانؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
وہ الفیوں سے بھی برتر ہے تھی خبر کس کو
سو جزوِ خاک کی عظمت سے جل گئیں صدیاں
وہ لمحہ سرورِ عالم کو جب ملی معراج
اُسی کے صدق�ۂجاں سے سنبھل گئیں صدیاں
کبھی کبھی ہوئے تخلیق پل بہ پل دیوان
کبھی کبھی تو مری بے غزل گئیں صدیاں
حقیر قصبوں کو دے دے کے رنگ عظمت کا
عظیم شہروں کا نقشہ بدل گئیں صدیاں
*
مطلع برائے نام غزل کا ضرور تھا
لیکن پھر اُس کے بعد قلم بے قصور تھا
سرحد پہ میرے مدِمقابل تھا جو بھی شخص
وہ بھی نہ جانے کتنے دلوں کا سرور تھا
اُس نے مجھے بکھیر رکھا تھا اِدھر اُدھر
لیکن مجھے بھی نظمِ غزل کا شعور تھا
وہ ہوگیا قلم تو ملا بے کراں سکوں
کس درجہ بار ہم پہ سرِ پُرغرور تھا
سب خوش ہیں آج اُس کو اندھیروں میں پھینک کر
جو اپنے آپ میں کبھی مینارِ نور تھا
اب اُس کو پاکے میں بھی بہت غم سے چور ہوں
وہ مجھ سے دور رہ کے کبھی غم سے چور تھا
*
اک بلا سرسے اترنے بھی نہیں پاتی ہے
دوسری آکے رگِ جا ں سے چمٹ جا تی ہے
چھین لینے کو ہے بیتاب مرے سارے حقوق
کیا سیاست ہے مساوات سے گھبراتی ہے
اُس نے بچپن میں اڑایا تھا درختوں کا مذاق
آج سایے کو جوانی اُسے ترساتی ہے
اور کون آئے گا اِس وقت گزیدہ کے قریب
اک تری یاد ہے آتی ہے، چلی جا تی ہے
فرق انسانوں، مشینوں میں سمجھنا مشکل
زندگی شہر کی اِس درجہ طلسماتی ہے
یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں بھول چکا ہے آزرؔ
اب ہمیں بھی کہاں اُس شخص کی یا د آتی ہے
*
ذلیل خود کو، اُسے باوقار کر نا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کر نا پڑا
وہ میری جان ہی لینے پہ تُل گیا تو پھر
اُسی کے تیر سے اُس کا شکار کر نا پڑا
وہ کام جس کو میں ادنا سمجھ رہا تھا بہت
وہ کام مجھ کو بصد افتخار کر نا پڑا
ہوا کی بات شرافت سے جب سنی نہ گئی
اُسے بھی لہجہ نیا اختیا ر کر نا پڑا
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اُس کو مجھے بار بار کر نا پڑا
اسے زمین بہت تنگ آرہی تھی نظر
اسے ہواؤں کے رتھ پر سوار کرنا پڑا
*
کسی بھی حال میں مر نا پڑے گا اُس کو بھی
وہ وقت ہے تو گزر نا پڑے گا اُس کو بھی
عظیم ہے تو اُسے عظمتوں کا پاس رہے
رذیل ہے تو سدھرنا پڑے گا اُس کو بھی
میں اپنا اسلحہ سارا تباہ کردوں مگر
اسی عمل سے گزرنا پڑے گا اُس کو بھی
وہ آسمانوں پہ کب تک اڑے گا آخرکار
اِسی زمیں پہ اُترنا پڑے گا اُس کو بھی
نگاہِ نقد رکھے دوسروں پہ خوب مگر
اب اپنا تجزیہ کرنا پڑے گا اُس کو بھی
اکیلے میں ہی اِسے ختم کیوں کروں آزر ؔ
اب اِس خلیج کو بھرنا پڑے گا اُس کو بھی
*
مجھے بھی کرنا پڑاتھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں، گھر جہنم میں
فضائے آتشِ گجرات سے جو بچ نکلے
پرندے پھر نہ گئے لوٹ کر جہنم میں
ملی تھی جب اسے جنت تو خو ش نہ تھا اتنا
وہ جتنا خوش ہے مجھے دیکھ کر جہنم میں
وہ شخص آج بھی ماضی سے ایسا الجھا ہے
کہ اُس کے پانو ہیں جنت میں، سر جہنم میں
فرشتے بولے جو چاہے جہاں چلا جائے
وہ شخص کود پڑا بے خطر جہنم میں
کہ جن کو دیکھ کے ذرے بھی محوِحیرت تھے
بڑے بڑے ملے شمس و قمر جہنم میں
اُسے بشارتِ جنت ہوئی تو حیرت کیا
گزارے اُس نے تھے شام و سحر جہنم میں
بچانا چاہ رہا ہوں اُسے جہنم سے
وہ جانا چاہ رہا ہے مگر جہنم میں
*
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
جہاں رستہ ہے ملکِ آخرت کا
سفر میں کیوں یہ گھر پھیلا رہا ہے
فضائے شہر آلودہ بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
وہ امن و آشتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
اتارا تھا زمیں پر تو نے جس کو
فلک تک پھر اثر پھیلا رہا ہے
جو تیرے در سے کتراتا تھا آزرؔ
وہ دامن در بدر پھیلا رہا ہے
*
مدتوں کا مسئلہ لمحوں میں حل ہوجائے گا
صفحۂ تاریخ میں ردّو بدل ہوجائے گا
جس کی باتوں میں عجب پیغمبرانہ شان تھی
کیا خبر تھی وہ بھی اتنا بے عمل ہو جائے گا
نذر ہوجائے گا ماضی کی یہ قتلِ عام بھی
رفتہ رفتہ درد بالکل نارمل ہو جائے گا
مسئلوں سے لڑکے ہی نکھرے گا حسنِ شخصیت
جو بھی اس کیچڑ سے ابھرے گا کنول ہوجائے گا
میں نے تھوڑی سی جگہ دی تھی جسے دل میں، وہ درد
کیا خبر تھی زندگی کا ماحصل ہو جائے گا
سانپ گر حالات کے ڈستے رہے آزرؔ تو پھر
اور ہی کچھ اپنا اندازِ غزل ہوگائے گا
*
ارادہ کب تھا اس کا خود کو دریا میں ڈبونے کا
اسے بس شوق تھا بہتی ندی میں ہاتھ دھونے کا
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
یہ تیرا ہی کرم ہے ورنہ کب یارا ہی تھا یارب !
مری نازک مزاجی کو غموں کے بار ڈھونے کا
ہوا کیا گر نگاہِ خامۂ تنقید ہے بے حس
مجھے خود بھی نہیں احساس اب کچھ اپنے ہونے کا
مجھے کب تلخیِ حالات نے موقع دیا جانم
سنہرے نرم رو الفاظ میں تجھ کو پرونے کا
جنابِ میرؔ بھی میری طرح مغموم تھے لیکن
مجھے موقع ہی کب ملتا ہے آزرؔ رونے دھونے کا
*
شکستہ آج کو کل سے جدا نہ کر پایا
وہ مقبرے کو محل سے جدا نہ کر پایا
اُسے بھی خود پہ بڑا اعتماد تھا لیکن
وہ مشتری کو زحل سے جدا نہ کر پایا
میں خواہشوں کو قناعت پہ کر چکا راضی
نگاہِ صبر کو پھل سے جدا نہ کر پایا
ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں
میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا
ہزار چاہا کہ دونوں میں رابطہ نہ رہے
پہ کیچڑوں کو کنول سے جدا نہ کر پایا
رواج شہر کے اپنا چکا مگر آزرؔ
مزاج دشت و جبل سے جدا نہ کر پایا
*
واقعیت کہیں کھل جائے نہ، گھبراتے ہیں
ہم وہ اکثر نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں
ہم ہیں پروردہ ہی کچھ ایسے مواسم کے ،کہ اب
دھوپ کیا سای�ۂ دیوار سے جل جاتے ہیں
ظلم کا سر نہ کچل پائے تھے اجداد، سو ہم
آج نا کردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں دیدۂ بینا نے کبھی
ہم اُسی خواب کی تعبیر سے گھبراتے ہیں
ہم جو لڑ پڑتے ہیں گھر میں کبھی بچوں کی طرح
پھر ہمیں بچے بڑوں کی طرح سمجھاتے ہیں
حق نمازوں کا ادا ہونہ ہو آزرؔ لیکن
ہم بھی مسجد میں چلے جاتے ہیں ہو آتے ہیں
*
علم اتنا تھا کہ آئی ہے گزر جائے گی رات
کیا خبر تھی میرے ہی گھر پر ٹھہرجائے گی رات
کیا خبر تھی بیکراں تاریکیوں کے باوجود
ایک جگنو کی ضیا باری سے ڈرجائے گی رات
متحد ہوکر نہ سورج کی طرح چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنوؤں کے پر کتر جائیگی رات
جب لگے گا اُس کو خود اپنی ہی تاریکی سے خوف
آسماں کی مانگ پھر تاروں سے بھر جائے گی رات
ہونے ہی والا ہے مشرق سے اجالے کا ظہور
خود ہی مغرب کے اندھیروں میں اترجائے گی رات
آخرش کب تک یوں ہی ٹھہرا رہے گا وقت بھی
غم نہ کر آزرؔ کسی صورت گزر جائے گی رات
*
حویلیوں سے بھی چھپر عظیم ہوتے ہیں
کہیں مکان، کہیں گھر عظیم ہو تے ہیں
عظیم وہ نہیں لڑکر جو ملک فتح کرے
عظیم خود سے ہی لڑکر عظیم ہوتے ہیں
غرور کیجے نہ دستار کی بلندی پر
کہیں کلاہ، کہیں سر عظیم ہوتے ہیں
انہیں کو وقت بناتا ہے محترم اکثر
جو اس کی ٹھوکریں کھا کر عظیم ہوتے ہیں
زبانِ اردو ہے کتنی عظیم مت پوچھو
کہ جس کے سارے سخن ور عظیم ہوتے ہیں
جنہیں کہیں بھی کوئی پوچھتا نہیں آزر ؔ
وہ میری رائے میں اکثر عظیم ہوتے ہیں
*
ظلم سے یکسر زمیں کو پاک ہونا چاہئے
ظالموں کو اب سپردِ خاک ہونا چاہئے
اس نے بھی نہریں بہائی ہیں ابلتے خون کی
خاتمہ اس کا بھی عبرت ناک ہونا چاہئے
کچھ بھی کہہ دیتا ہے وہ گزرے دنوں کے نام پر
آج ماضی کا بھی سینہ چاک ہونا چاہئے
انؐ کو اپنے جیسا کہنے والے جاہل شخص کو
کچھ خیالِ آیتِ لولاک ہونا چاہئے
جس کو بھی دیکھو بنا جاتا ہے اکثر بے وقوف
اب شریفوں کو بھی کچھ چالاک ہونا چاہئے
موت سے ملتے ہوئے بالکل ہی گھبراہٹ نہ ہو
زندگی کو اس قدر بے باک ہونا چاہئے
*
سب سمجھتے ہیں کہ ہے کتنی گرانی پھر بھی
خون کی طرح بہا دیتے ہیں پانی پھر بھی
میں گلا گھونٹے ہی رکھتا ہوں ہمیشہ اس کا
چیخ پڑتا ہے مرا دردِ نہانی پھر بھی
مشورے عقل کے اس سے تو کہیں بہتر تھے
حضرتِ دل نے کوئی بات نہ مانی پھر بھی
پوچھتا رہتا ہے اوروں سے سدا چھپ چھپ کر
مجھ سے سنتا ہی نہیں میری کہانی پھر بھی
مجھ کو جنت کی بھی عظمت سے نہیں کچھ انکار
خوب صورت سا لگا عالمِ فانی پھر بھی
ایک اک لفظ سے سچائی کی بو آتی ہے
کتنی دلچسپ ہے آزرؔ کی کہانی پھر بھی
*
خود اپنی گود میں ہی اس نے خود کو پالا تھا
خود اپنی موت پہ آنسو بہانے والا تھا
بس اک امید کا دامن بچا تھا میرے لیے
اسے بھی تلخ حقائق نے پھاڑ ڈالا تھا
نہ جانے کیسے جیا ہوگا وہ کہ اس کے پاس
بس ایک دل ہی تھا اور وہ بھی چھننے والا تھا
وہ شخص پھر بھی نہ پہنچا سحر کی سرحد تک
اندھیری شب میں بھی امید کا اجالا تھا
پڑی ہوئی تھی کوئی بددعا مرے پیچھے
میں ورنہ کب تری باتوں میں آنے والا تھا
بس ایک شہرِ غزل راس آیا تھا آزرؔ
وہاں بھی حضرتِ غالبؔ کا بول بالا تھا
*
اس نے کیا مذاق مری زندگی کے ساتھ
بویا کسی کے ساتھ تو کاٹا کسی کے ساتھ
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
اچھا ہوا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے
بھُن جاتے ورنہ وہ بھی کسی "بیکری" کے ساتھ
سب اشتہار بازی میں مصروف تھے مگر
اک شخص کام کرتا رہا خامشی کے ساتھ
یہ اور بات ہے کہ خدا نے بچا لیا
میں جنگ لڑ رہا تھا بڑی بزدلی کے ساتھ
خود سے رہا تھا دست و گریباں کچھ اِس قدر
وہ شخص زندگی میں نہ الجھا کسی کے ساتھ
*
بے فکریوں کی عمر تو لمحوں میں کٹ گئی
پھر جونک مسئلوں کی صدی سے لپٹ گئی
ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانوں میں بٹ گئی
بے ربط ہو چلے ہیں مواسم کے سلسلے
شاید زمین اَبلقِ محور سے ہٹ گئی
اک سال تیری عمر بڑھی ہے مبارکاں!
اک سال زندگی بھی مگر اور گھٹ گئی
جو آسمان چوم رہی تھی روایتاً
وہ آخری پتنگ امیدوں کی کٹ گئی
تھا مسئلوں کا ذہن میں کچھ شور اِس قدر
پھر زندگی میں نیند نہ آئی اچٹ گئی
*
میری خواہش کے مطابق سامنے دریا رہا
میری قسمت کے مطابق میں سدا پیا سا رہا
اُس نے والد کی نہ مانی تھی فقط اک بات اور
زندگی میں دیر تک پھر قہر سا برپا رہا
کیسے کیسے حادثے گزرے تھے ماضی میں ،کہ میں
اپنے ہی اشعار پڑھ کر دیر تک روتا رہا
بد دعا سورج کو اک ذرے کی ایسی لگ گئی
آسماں پر مدّتوں پھر ابر سا چھایا رہا
اُس کی ہر کوشش یہی تھی میرا سورج ڈوب جائے
پر مرا انجام جیسا بھی رہا اچھا رہا
آج کوئی بھی اُسے پہچاننے والا نہیں
اتنے چہرے بدلے تھے اُس نے کہ بے چہرہ رہا
*
وقت کا احترام کر نے لگے
شیر سرکس میں کام کر نے لگے
جب سے شاہی چھنی ہے جنگل کی
نیند گیدڑ حرام کرنے لگے
ّ
آج کے بھیڑیوں کا کہنا ہے
میمنے قتل عام کر نے لگے
جب سے ملنے لگے خواص سے ہم
احترامِ عوام کر نے لگے
اب بڑھاپا قریب آ پہنچا
ہم بھی کچھ نیک کام کر نے لگے
*
میں جب ہوا کے ارادوں کو جان لیتا ہوں
لڑے بغیر ہی پھر ہار مان لیتا ہوں
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیرو کمان لیتا ہوں
فضائے شہر سے آتی ہوئی ہواؤں کو
میں سانس لینے سے پہلے ہی چھان لیتا ہوں
بڑے سکون سے اکثر زمیں کے بستر پر
اب آسمان کی چادر بھی تان لیتا ہوں
یہ اور بات کہ پورا کوئی نہیں ہوتا
ہمیشہ عزم کوئی دل میں ٹھان لیتا ہوں
یہ واقعہ ہے کہ ناکام رہتا ہوں اکثر
میں جب بھی اپنا کوئی امتحان لیتا ہوں
*
سارے درد نظر آئیں گے گھر سے باہر
جس دن میں نکلوں گا پس منظر سے باہر
لاکھ سمیٹے رکھوں پر جانے انجانے
ہوجاتے ہیں پانو مرے چادر سے باہر
کب سے ہیں انکھیاں تیرے درشن کی پیاسی
درش دکھا دے آ بھی جا پتھر سے باہر
پہلے جس کی آنکھ نشانے پر تھی میرے
اب وہ چڑیا بھی ہے حدِ نظر سے باہر
آج بھی میں کھل کر سچ بول نہیں سکتا ہوں
اب بھی نہیں ہوں اس کے حصارِ شر سے باہر
جس کو میں نے صدی کا روپ دیا تھا آزرؔ
اب وہ لمحہ بھی ہے میرے اثر سے باہر
*
یہ اور بات کہ آسودگی بہت کم ہے
ذہین شہر میں اب مفلسی بہت کم ہے
عجیب دور ہے یہ شہرِ میرؔ و غالبؔ کا
سخن سرا ہیں بہت، شاعری بہت کم ہے
خصوصیات کچھ اُس میں فرشتوں جیسی ہیں
یہ اور بات ہے، وہ آدمی بہت کم ہے
مزاج رکھتے ہیں سب لوگ اب سمندر کا
نئے شعور میں دریا دلی بہت کم ہے
چلو مرے ہوئے لوگو ں کو ہی صدائیں دیں
کہ زندہ لوگوں میں اب زندگی بہت کم ہے
عجیب شہرہے یہ چھانو بھی ہے کم لیکن
ضرورتوں کی یہاں دھوپ بھی بہت کم ہے
*
خزاں رسیدہ قیادت میں کیوں نہیں آتے
اب اچھے لوگ سیاست میں کیوں نہیں آتے
جدا جدا رگِ، ظالم پہ وار کرتے ہیں
ستم زدہ کبھی وحدت میں کیوں نہیں آتے
ہجومِ یاس کے آتے ہی دیتے ہیں دستک
یہ دل کے درد بھی فرصت میں کیوں نہیں آتے
تجھے جو صفحۂ ہستی پہ جاوداں کردیں
وہ لفظ میری عبارت میں کیوں نہیں آتے
حکایتوں کے نگر کے عظیم شہزادے
کبھی بھی شہرِ حقیقت میں کیوں نہیں آتے
میں آنسوؤں کی نگاہوں سے چومتا تھا تجھے
اب ایسے لمحے عبادت میں کیوں نہیں آتے
*
خدا کے سامنے جھکتی ہوئی جبین لگے
ہوا چلی تو مناظر بڑے حسین لگے
کہیں مکینوں سے بہترمکاں ملے مجھ کو
کہیں مکانوں سے بہتر مجھے مکین لگے
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی میری آستین لگے
یہ اور بات یہاں بھی نہیں سکون مگر
مجھے یہی مرے خوابوں کی سر زمین لگے
نہ جانے کون سے پل سب دھواں دھواں ہوجائے
خود اپنے بیٹوں سے سہمی ہوئی زمین لگے
ہر ایک شہر ہے شہرِ طلسمِ نو آزرؔ
جسے بھی دیکھو وہی آدمی مشین لگے
*
خود اپنا بارِ غم ڈھونا پڑے گا
مگر ہر لحظہ خوش ہونا پڑے گا
وہ اتنا ہنس چکا ہے زندگی میں
کہ شاید عمر بھر رونا پڑے گا
اگر تم خود کو پانا چاہتے ہو
تو اپنے آپ کو کھونا پڑے گا
وہ شاید خواب میں دوبارہ آئے
مجھے اک بار پھر سونا پڑے گا
نکھر جائے گی پھر صورت تمہاری
مگر اشکوں سے منہ دھونا پڑے گا
پڑے گا دشمنوں کا ساتھ دینا
خلاف اپنے اسے ہونا پڑے گا
*
اسی امید پر آزرؔ کہ شاید اب بہار آئے
سنہری زندگی دورِ خزاں میں ہی گزار آئے
پیمبر تو نہیں تھے پھر بھی قدرت کے اشارے پر
نہفتہ معجزے ہم بھی خلاؤں سے اتار آئے
ہمارا حال ماضی کا پتہ دیتا نہیں یکسر
ہماری عظمتِ رفتہ پہ کس کو اعتبار آئے
بڑے ہونے پہ یہ دنیا کبھی جینے نہیں دیتی
سو ہم بھی زندگی جی بھر کے بچپن میں گزار آئے
کہاں فرصت کہ میں اس دل کی ہر خواہش کروں پوری
یہ پاگل چاہتا ہے پھر سے دورِ انتظار آئے
*
کچھ اِس طرح سے عبادت خفا ہوئی ہم سے
نمازِ عشق بہت کم ادا ہوئی ہم سے
غریب آنکھوں میں آنسو بھی اب نہیں آتے
الٰہی رحم کہ پھر کیا خطا ہوئی ہم سے
ہم ابتدا ہی کہاں نیکیوں کی تھے یارب
تو پھر گناہوں کی کیوں انتہا ہوئی ہم سے
یہ بدنصیبی ہماری ہے، کم ہوا ایسا
کہ دشمنوں کے بھی حق میں دعا ہوئی ہم سے
سلوک موت کا ہم سے نہ جانے کیسا ہو
یہ زندگی تو بہت بے مزہ ہوئی ہم سے
کہاں چھپائیں گے محشر میں خود کو ہم آزرؔ
کہاں اطاعتِ خیرالوریٰ ہوئی ہم سے
*
عجیب انداز کی یہ زندگی محسوس ہوتی ہے
بھلی معلوم ہوتی ہے بُری محسوس ہوتی ہے
تنفّس اک مسلسل خود کُشی کا نام ہے شاید
میں جتنا جیتا ہوں اتنی نفی محسوس ہوتی ہے
وہ ہو موجود تو اس پر توجہ بھی نہیں جاتی
نہ ہو موجود تو کتنی کمی محسوس ہوتی ہے
فضاؤں تک ہی گر محدود رہتی تو بھی چل جاتا
خلاؤں میں بھی اب آلودگی محسوس ہوتی ہے
عجیب انساں ہے اب بھی زندگی کے گیت گاتا ہے
مجھے ہر سانس اس کی آخری محسوس ہوتی ہے
کبھی آیا تھا میری زندگی میں زلزلہ آزرؔ
مجھے اب تک زمیں ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
*
بے رحم سچ نے اتنا ڈرایا تمام عمر
دیکھا نہ ہم نے خواب کا چہرہ تمام عمر
نبیوں کا سلسلہ بھی اسے روکنا پڑا
لپٹی رہی گناہ سے دنیا تمام عمر
بچپن میں اپنے ساتھ رہا، میں جہاں رہا
پھر میں بھی خود کو ڈھونڈ نہ پایا تمام عمر
مجبوریوں کا نام رکھا زندگی نے صبر
پھر اُس کے بعد پھل کی تمنا تمام عمر
اک گھر کا خواب آنکھوں نے دیکھا زمین پر
بنتا رہا خیالوں میں نقشہ تمام عمر
ورنہ تو کتنے لوگ ملاقاتیوں میں تھے
مجھ سے وہی ملا جو نہ بچھڑا تمام عمر
طنز و مزاح
*
(روحِ غالبؔ سے معذرت کے ساتھ)
نہا کر کولڈ واٹر سے جو کل کالج کو ہم نکلے
یہی تھی آرزو دل کی کہ یارب جلد دم نکلے
حقیقت دوستوں کی چھ مہینے بعد کھل پائی
سمجھتا تھا جنہیں چاندی وہ سب المونیم نکلے
نشیمن کو جلانے کا نیا انداز تو دیکھو
پکڑ کر بجلیوں کی جب تلاشی لی تو بم نکلے
تیرے ڈیڈی سے مل کر کل رقیبوں نے ہمیں پیٹا
’’بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘
ق
پچھتر کا ہوا آغاز تو منّے کی ماں بولیں
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘
مگر وہ سالِ نسواں ختم ہونے پر لگیں کہنے
’’بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘
نہیں رک سکتے تیری دید کی خاطر کبھی گھنٹوں
بجی چھٹی کی گھنٹی بس پکڑ کر گھر کو ہم نکلے
فضا گڑ بڑ ہوئی جب شہر کی تو گولیاں لے کر
ادھر اہلِ حرم نکلے ادھر اہلِ دھرم نکلے
جو پیروڈی سنی تو روحِ غالبؔ نے کہا مجھ سے
’’خدا کی مار ہو تجھ پر ترا بھی جلد دم نکلے‘‘
*
نہیں مقام بنا اردو شاعری میں بھی
رگڑ چکا ہوں بہت ناک ناگری میں بھی
تری تلاش میں آیا ہوں جامعہ کی طرف
رہا ہوں ڈیڑھ مہینے فتح پوری میں بھی
نہیں ہے عشق فقط کالجوں تک محدود
ہیں اس کے چرچے تو ہائر سکینڈری میں بھی
غلط ہے یہ کہ ہے سرداروں کا اثر مجھ پر
مرا ہی عکس ہے سردار جعفری میں بھی
نئے زمانے کا غالبؔ سمجھتا ہوں خود کو
مزا بلا کا ہے احساسِ برتری میں بھی
پتی تو بن نہ سکا لکھ پتی میں کیا بنتا
کئی ہزار گنوا ڈالا لاٹری میں بھی
*
خود اپنا پرچہ نکالا مدیر ہو بیٹھے
مہینے بھر میں مکمل فقیر ہو بیٹھے
بہانہ اچھا ملا قافیوں سے بچنے کا
سخن طراز ترقی پذیر ہو بیٹھے
کناٹ پلیس پہ دیکھا جو حسن کا منظر
جنابِ شیخ کے ارماں شریر ہو بیٹھے
نئے زمانے کے فیشن کا یوں لگا تھپڑ
کہ خود بخود ہی سبھی رانجھے ہیر ہو بیٹھے
جنابِ شیخ کی شیخی بھی دیکھئے تو ذرا
مرید کرکے حسینوں کے پیر ہو بیٹھے
غموں کے لاد دیئے اس نے کئی سو بنڈل
مجھے ہے ڈر کہ نہ آزرؔ بھی میرؔ ہو بیٹھے
*
ادائے مغربی تم میں نہیں اے جانِ فریادی
اگر چاہوں تمہارے ناز کو مٹی میں ملوادوں
بکھر جائیں تمہارے حسن کے پرزے ابھی فوراً
کلیم الدین احمد سے اگر تنقید لکھوادوں
*
چند سکوں کا مت ملال کرو
مرتبے کا مرے خیال کرو
پیر ہوں تم مرید ہو میرے
ایک مرغی ہی تو حلال کرو
*
شیخ جی آپ بھی مسرور ہوا کرتے ہیں
مئے انگور سے مخمورر ہوا کرتے ہیں
آپ کہتے ہیں کہ پیتا نہیں شراب مگر
روح افزا میں بھی انگور ہوا کرتے ہیں
*
اگر دل میں جگہ اس وقت ممجھ کو دے نہیں سکتے
تو ویٹنگ لسٹ ہی میں نام میرا درج کرلیجے
*
دوسروں کے مال و دولت سے ہمیشہ پیار ہے
دل مرے محبوب کا برطانیہ سرکار ہے
*
میں رحم کھا کہ جو سائل سے بات کرنے لگا
وہ دور ہٹ کے موبائل سے بات کرنے لگا
*
دھواں اٹھتا ہے تو کچھ بات بھی ہوگی ضرور اے دل
یقیناًمجھ سے چھپ کر تو بہت سگریٹ پیتا ہے
*
اگر یونیورسٹی والوں کا رشتہ دار ہوجاتا
کم از کم لکچرر شپ کا تو میں حقدار ہوجاتا
بچوں کا مشاعرہ
سردی آئی
سورج نے بھی اوڑھی رضائی
سردی آئی! سردی آئی!
سب لوگوں میں مچی دہائی
سردی آئی! سردی آئی!
کوّا بولا کائیں کائیں
بلّی بولی میاؤں، میاؤں
چوہا بولا دھوپ نہیں ہے
دھوپ آئے تو باہر جاؤں
سویٹر پہنے ہوئے گلہری
کونے میں چھپ کر بیٹھی ہے
اور بندریا کمبل اوڑھے
صوفے پر کیسی اینٹھی ہے
تھر تھر تھر تھر کانپ رہا ہے
گیدڑ بھی سردی کے مارے
مرغا بولا گرمی کے دن
ہم کو لگتے سب سے پیارے
جب آئی اسکول میں چڑیا
چپکے سے وہ بھی چلائی
شور مچانے لگے سبھی پھر
سردی آئی! سردی آئی!
ا رے باپ رے گرمی آئی
سورج نے پھر ڈھائی قیامت
سب لوگوں پر آئی آفت
اُلّو تک کو آیا پسینہ
سر پر آیا جون مہینہ
برف پہ لیٹی چوہیا تائی
ارے باپ رے گرمی آئی
سَو سَو بار گلہری رانی
پیتی رہتی فِرج کا پانی
ہفتہ ہو، اتوار کہ منگل
گیدڑ پیتا ٹھنڈی بوتل
بھالو کے گھر فَین نہیں ہے
اس کو بالکل چین نہیں ہے
کچھوے کی اچھی پوزیشن
اس کا گھر ایئر کنڈیشن
دھوپ میں ننھی چھتری لے کر
بندر جی جاتے ہیں دفتر
بھوک نہیں، ہاں پیاس کا مارا
ہانپتا ہے کتنا بے چارا
چپ سادھے ہیں مینڈک بھائی
ارے باپ رے گرمی آئی!