فریاد آزرؔ کا جہانِ دیگر
پروفیسر عتیق اللہ نئی دہلی
فریادا آزر کا نیا ‘ مجموعہ کلام موسوم بہ ’’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے، اس سے قبل ان کے تین مجموعے ’’ خزاں میرا موسم ‘(1994) ، بچوں کا مشاعرہ (1998) میں اور قسطوں میں گذرتی زندگی‘ (2005) میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان دس گیارہ برسوں کے دوران اگر چہ چوتھا محض انتخاب ہے ۔چار مجموعوں کی یکے بعد دیگرے اشاعت کے معنی یہ بھی ہیں کہ شاعر کا تخلیقی وجدان مسلسل روبہ نمو ہے اور اس نمو یافتگی میں بھی محض یکساں روی کا دخل نہیں ہے کہ شاعر نے جس آواز کو ابتدائے سفر میں اپنی پہچان کا وسیلہ بنایا تھاپندرہ بیس برس کے بعد بھی وہ اسی کی پرداخت میں مصروف ہے۔ فریاد آزر کے اس طویل تخلیقی سفر کے تمام سنگِ ہائے میل کا مجھے بخوبی علم ہے ۔ اطمینان کی خبر یہ ہے کہ کسی بھی سنگِ میل کو انہوں نے مستقل پڑاؤ نہیں بنایابلکہ ہر سنگِ میل کے وقفے کوانہوں نے ایک تجربے کے طور پرہی اخذ کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فریاد آزر کے کلام میں واضح طور پرایک ارتقاء کی صورت نظر آتی ہے ۔ اس قسم کا ارتکازاوریکسوئی جو شاعر کے اعتمادکی دلیل ہے ‘ کم ہی کا مقدر بنتی ہے، اس کے لئے اپنے آپ سے بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے‘ اپنے آپ کو بار بار رد کرنا پڑ تاہے،بار بار اپنی باطن کی چھان پھٹک کرنی پڑ تی ہے،اپنے لمحاتی جذبوں اور ان کے وفور پرقدغن لگانی پڑتی ہے جب کہیں ارتکاز اور یکسوئی کی وہ صورت پیدا ہوتی ہے جو شاعر کے قدم بقدم پیش روی کرتی ہے ۔درج ذیل اشعار فریاد آزر کی تخلیقی سمت و رفتارکی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور اس تخلیقی تدریجی ارتقاء کے مظہر بھی ہیں جس کا پہلا نقش’خزا ں میراموسم‘ نے قائم کیا تھا ۔
عجیب طور کی مجھ کو سزاسنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
*
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
*
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
*
تما م عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
*
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
*
(خزاں میرا موسم)
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں ماردیتا ہے اسے دورِ جدید
*
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا ،خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا،فرات
(۲)
جب ملا تبد یلئ تاریخ کا موقع اسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا
*
یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں
اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو
*
مرے وجود سے اس درجہ خوف ہے اس کو
کہ میرا نام و نشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
*
(قسطوں میں گذرتی زندگی)
جیسا کہ میں عر ض کرچکا ہوں کہ فریاد آزر نے کسی بھی مرحلۂ سفر کو مستقل پڑاؤنہیں مانا۔ ’ خزاں میرا موسم‘کے اشعار میںآزر جس کرب اور جس دکھ سے دوچار ہے وہ عصری تہذیبی زندگی کا پیدا کردہ ہے ۔فریاد آزر اپنی چاروں طرف کی ہنگامہ خیز اور شور آگیں زندگی سے پوری طرح بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ وابستہ بھی ہے اور اس سے ایک ایسی لاتعلقی بھی محسوس کرتا ہے جو اس کے لئے مستقل ایک سوال بنی رہتی ہے۔دونوں کے درمیان ایک ایسی خلیج ضرور ہے جوبادی النظر میں دکھائی نہیں دیتی لیکن شاعر کا سارا دکھ ہی یہی ہے کہ پوری طرح شمولیت کے باوجود ایک اجنبی پن ایک نامانوسیت بہرطور برقرارہے۔دراصل فریاد آزر ایک ایسا خاص اخلاقی وِزن رکھتا ہے جسے تمام حقائق اور تمام چیزوں کی کسوٹی کا نام دینا چاہئے۔ اسے جہاں اپنی اخلاقیات سے تصادم کا سامنا ہوتا ہے وہیں اس کے قلم میں بھی ایک نئی آب آجاتی ہے اور احتجاج اس کا کلمہ بن جاتا ہے۔فریاد آزر کے لئے شہر اور اس کی اندھادھندبڑھتی پھیلتی ہوئی تہذیبی زندگی ہی تمام اعلیٰ ترین انسانی اقدار کی مرگ آثاری کا باعث ہے انسانی رشتوں کی پامالی اور نیک ترین انسانی جذبوں اور بنیادی معصومیتوں کی ناقدری، فریاد آزر کے خوش خواب کے تئیں ایک بڑے چیلینج کا بھی حکم رکھتی ہے۔فریاد آزر کا یہی خوش خواب (یوٹو پیا) ’قسطوں میں گذرتی زندگی‘ تک آتے آتے چکنا چور ہوجا تا ہے ، جس کی بس کرچیاں ہی اس کے حصے میں آتی ہیں۔غزل کی صنف کے عمومی مضامین کے برخلاف فریاد آزر کے مضامینِ شعر، ان کے اپنے تجربات کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔ جو غزل کی عمومی فضاکے تئیں یقیناًنامانوس ہیں لیکن اس اقلیت کے ایک فرد کے لئے قطعاََ نامانوس نہیں ہیں، جوگذشتہ ساٹھ برسوں سے ایک انتہائی غیر یقینی، حوصلہ شکن، بشریت کُش، اور تاریخ کُش عہد میں زیست بسری کے لئے مجبور ہے۔ ہمارے ادوار میں تاریخ نے ایک ایسی مظلوم و مجبور عورت کا روپ دھارن کرلیا ہے جوتنہا اور بے چارہ ہے اور جس کی عصمت کو صدیوں کے من گڑھت مظالم کے انتقام کی پیاس بجھانے کے لئے بڑی بے دردی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ تارتار کیا جارہاہے ۔ احمد آباد اور سورت کے واقعات، تاریخ کے وہ متون ہیں جن کے تحت المتون فریاد آزر کی شاعری کے اصل مخرج ہیں۔ فریاد آزر نے ان مضامینِ نوکے علاوہ ایسے بہت سے مضامین کو بھی جگہ دی ہے ، جن کی معنویت کا دائرہ قدرے وسیع ہے اسی نے حقائق کے پرے اور میرے دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی سعی کی ہے۔ ہرجا جو جہانِ دیگر ہے آزر اسے بڑے ضبط اور یکجائی کے ساتھ کسب کرنے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ اس جہانِ دیگر کاتعلق جہاں ایک طرف اس کے ہرچہار طرف کی دنیا سے ہے وہیں اس کے اس باطن سے بھی گہراہے جو نہ تو محفوظ ہے اور نہ جس کی حیثیت ایک مامن کی رہی ہے۔ فریاد آزر کی شاعری میں انہیں بے چینیوں نے اس کی آواز کو بھی لہو رنگ بنادیا ہے۔
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایالمحوں کا
رُکے توپاؤں سے آگے نکل گئی صدیاں
*
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
*
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
*
پاؤں کے نیچے سلگتی ریت صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتاہوا
*****
پروفیسر عتیق اللہ نئی دہلی
فریادا آزر کا نیا ‘ مجموعہ کلام موسوم بہ ’’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے، اس سے قبل ان کے تین مجموعے ’’ خزاں میرا موسم ‘(1994) ، بچوں کا مشاعرہ (1998) میں اور قسطوں میں گذرتی زندگی‘ (2005) میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان دس گیارہ برسوں کے دوران اگر چہ چوتھا محض انتخاب ہے ۔چار مجموعوں کی یکے بعد دیگرے اشاعت کے معنی یہ بھی ہیں کہ شاعر کا تخلیقی وجدان مسلسل روبہ نمو ہے اور اس نمو یافتگی میں بھی محض یکساں روی کا دخل نہیں ہے کہ شاعر نے جس آواز کو ابتدائے سفر میں اپنی پہچان کا وسیلہ بنایا تھاپندرہ بیس برس کے بعد بھی وہ اسی کی پرداخت میں مصروف ہے۔ فریاد آزر کے اس طویل تخلیقی سفر کے تمام سنگِ ہائے میل کا مجھے بخوبی علم ہے ۔ اطمینان کی خبر یہ ہے کہ کسی بھی سنگِ میل کو انہوں نے مستقل پڑاؤ نہیں بنایابلکہ ہر سنگِ میل کے وقفے کوانہوں نے ایک تجربے کے طور پرہی اخذ کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فریاد آزر کے کلام میں واضح طور پرایک ارتقاء کی صورت نظر آتی ہے ۔ اس قسم کا ارتکازاوریکسوئی جو شاعر کے اعتمادکی دلیل ہے ‘ کم ہی کا مقدر بنتی ہے، اس کے لئے اپنے آپ سے بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے‘ اپنے آپ کو بار بار رد کرنا پڑ تاہے،بار بار اپنی باطن کی چھان پھٹک کرنی پڑ تی ہے،اپنے لمحاتی جذبوں اور ان کے وفور پرقدغن لگانی پڑتی ہے جب کہیں ارتکاز اور یکسوئی کی وہ صورت پیدا ہوتی ہے جو شاعر کے قدم بقدم پیش روی کرتی ہے ۔درج ذیل اشعار فریاد آزر کی تخلیقی سمت و رفتارکی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور اس تخلیقی تدریجی ارتقاء کے مظہر بھی ہیں جس کا پہلا نقش’خزا ں میراموسم‘ نے قائم کیا تھا ۔
عجیب طور کی مجھ کو سزاسنائی گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
*
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہے
ذہن کو کیسے میں سمجھاؤں کہ سب جانتا ہے
*
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
*
تما م عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
*
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے
*
(خزاں میرا موسم)
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں ماردیتا ہے اسے دورِ جدید
*
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا ،خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا،فرات
(۲)
جب ملا تبد یلئ تاریخ کا موقع اسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا
*
یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں
اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو
*
مرے وجود سے اس درجہ خوف ہے اس کو
کہ میرا نام و نشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
*
(قسطوں میں گذرتی زندگی)
جیسا کہ میں عر ض کرچکا ہوں کہ فریاد آزر نے کسی بھی مرحلۂ سفر کو مستقل پڑاؤنہیں مانا۔ ’ خزاں میرا موسم‘کے اشعار میںآزر جس کرب اور جس دکھ سے دوچار ہے وہ عصری تہذیبی زندگی کا پیدا کردہ ہے ۔فریاد آزر اپنی چاروں طرف کی ہنگامہ خیز اور شور آگیں زندگی سے پوری طرح بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ وابستہ بھی ہے اور اس سے ایک ایسی لاتعلقی بھی محسوس کرتا ہے جو اس کے لئے مستقل ایک سوال بنی رہتی ہے۔دونوں کے درمیان ایک ایسی خلیج ضرور ہے جوبادی النظر میں دکھائی نہیں دیتی لیکن شاعر کا سارا دکھ ہی یہی ہے کہ پوری طرح شمولیت کے باوجود ایک اجنبی پن ایک نامانوسیت بہرطور برقرارہے۔دراصل فریاد آزر ایک ایسا خاص اخلاقی وِزن رکھتا ہے جسے تمام حقائق اور تمام چیزوں کی کسوٹی کا نام دینا چاہئے۔ اسے جہاں اپنی اخلاقیات سے تصادم کا سامنا ہوتا ہے وہیں اس کے قلم میں بھی ایک نئی آب آجاتی ہے اور احتجاج اس کا کلمہ بن جاتا ہے۔فریاد آزر کے لئے شہر اور اس کی اندھادھندبڑھتی پھیلتی ہوئی تہذیبی زندگی ہی تمام اعلیٰ ترین انسانی اقدار کی مرگ آثاری کا باعث ہے انسانی رشتوں کی پامالی اور نیک ترین انسانی جذبوں اور بنیادی معصومیتوں کی ناقدری، فریاد آزر کے خوش خواب کے تئیں ایک بڑے چیلینج کا بھی حکم رکھتی ہے۔فریاد آزر کا یہی خوش خواب (یوٹو پیا) ’قسطوں میں گذرتی زندگی‘ تک آتے آتے چکنا چور ہوجا تا ہے ، جس کی بس کرچیاں ہی اس کے حصے میں آتی ہیں۔غزل کی صنف کے عمومی مضامین کے برخلاف فریاد آزر کے مضامینِ شعر، ان کے اپنے تجربات کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔ جو غزل کی عمومی فضاکے تئیں یقیناًنامانوس ہیں لیکن اس اقلیت کے ایک فرد کے لئے قطعاََ نامانوس نہیں ہیں، جوگذشتہ ساٹھ برسوں سے ایک انتہائی غیر یقینی، حوصلہ شکن، بشریت کُش، اور تاریخ کُش عہد میں زیست بسری کے لئے مجبور ہے۔ ہمارے ادوار میں تاریخ نے ایک ایسی مظلوم و مجبور عورت کا روپ دھارن کرلیا ہے جوتنہا اور بے چارہ ہے اور جس کی عصمت کو صدیوں کے من گڑھت مظالم کے انتقام کی پیاس بجھانے کے لئے بڑی بے دردی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ تارتار کیا جارہاہے ۔ احمد آباد اور سورت کے واقعات، تاریخ کے وہ متون ہیں جن کے تحت المتون فریاد آزر کی شاعری کے اصل مخرج ہیں۔ فریاد آزر نے ان مضامینِ نوکے علاوہ ایسے بہت سے مضامین کو بھی جگہ دی ہے ، جن کی معنویت کا دائرہ قدرے وسیع ہے اسی نے حقائق کے پرے اور میرے دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی سعی کی ہے۔ ہرجا جو جہانِ دیگر ہے آزر اسے بڑے ضبط اور یکجائی کے ساتھ کسب کرنے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ اس جہانِ دیگر کاتعلق جہاں ایک طرف اس کے ہرچہار طرف کی دنیا سے ہے وہیں اس کے اس باطن سے بھی گہراہے جو نہ تو محفوظ ہے اور نہ جس کی حیثیت ایک مامن کی رہی ہے۔ فریاد آزر کی شاعری میں انہیں بے چینیوں نے اس کی آواز کو بھی لہو رنگ بنادیا ہے۔
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایالمحوں کا
رُکے توپاؤں سے آگے نکل گئی صدیاں
*
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
*
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
*
پاؤں کے نیچے سلگتی ریت صدیوں کا سفر
اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتاہوا
*****
No comments:
Post a Comment